نفس الامر
تحریر : یاسین عزیز
دی بلوچستان پوسٹ
سماعت، بینائی اور بصیرت کا تال میل جب غیرمتوازن اور ضعیف ہو تو سنائی دینے والی آوازیں اور دکھائی دینے والے مناظرمیں حقیقت اور سچائی کو سمجھنا بالکل بھی آسان نہیں ہوتا، بسا اوقات آوازیں اور مناظر جو پیش کررہے ہوتے ہیں، وہ حقائق نہیں ہوتے بلکہ حقیقت تو ان سے ایک الگ شکل لئے اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
آپ کیا سنتے اور دیکھتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں اور کیا کہتے ہیں، کیا اس سے حقیقت کو کوئی سروکارہوتا ہوگا؟ آپ مان کے چلتے ہیں قبول کرتے ہیں یاانکار کرکے ناقابل قبول قرار دیتے ہیں کیا حقیقت و سچائی آپ کے خواہشات کے تحت اپنا تہہ بدل دے گا؟
میرے خیال کے مطابق ہرگز نہیں، دراصل حقیقت کے آشکار ہونے تک اسکو نہ سمجھنا یا سمجھنے کی جستجو کرنا ایک بہتر عمل مانا جاتا ہے لیکن حقیقت سے انکار ایک ایسا عمل ہے، جو حقیقت کے سامنے آپکو لاکھڑا کردیتا ہے آپ ٹکراؤ کے عمل کو سرانجام دیتے ہیں، جس میں آپ حقیقت کو رد کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ حقیقت جب اپنے آپ کو تسلیم کرواتا ہے تب آپ کا کردار منفی صورت میں سامنے آتا ہے، سماعت اور بینائی کو راست قوت، بصیرت عطا کرتا ہے، صاحب بصیرت حقیقت کی گہرائیوں، تلخیوں اور ہولناکیوں سے انکار کرے یہ ممکن نہیں، تراش خراش لیکن اگر مگر، ایسا ویسا جو کچھ بھی جیسا بھی ہوتا ہے اسکے پیچھے کا جوبھی مقصد ہوتا ہے، وہ حقیقت و سچائی کے خلاف ہی ہوتا ہے، حقیقت کو مان کر چلنا اور حقیقت کے ساتھ اپنے راستے متعین کرنا دانش مندی مانا جاتا ہے، ابہام پھیلانے کا مقصد حقیقت سے انکار کرکے اس کے وجود کو مسخ کرنا ہوتا ہے تاکہ حقیقت کو جھٹلایا جاسکے یہ عمل از خود فریب دھوکہ دہی کیلئے ثبوت پیش کرتا ہے۔
جب ہم حقیقت سے انکار کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو ہم پر بھروسہ کرتے ہیں، اس حقیقت کی چاہیئے جو بھی شکل ہو وہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو ہمارے تصورات، خواہشات و مفادات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو دشمن کو دوست قرار دیکر ہم اسکی حقیقی ذات و ساخت بدل رہے نہیں ہوتے بلکہ ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ سانپ کو رسی سمجھنے سے وہ رسی نہیں بن جاتا یا رسی کو سانپ سمجھنے سے وہ سانپ نہیں بن جاتا، اس سمجھنے کی دورانیے میں خوش فہمی اور خوف کا خاتمہ حقیقت کے آشکار ہونے پر ہوجاتا ہے لیکن حقیقت کے آشکار ہونے کے بعد بھی خوش فہمی اور خوف میں مبتلا رہنا انسانی بصیرت پر سوال اٹھاتا ہے، انسانی خصلت، ضد اور حسد صاحب بصیرت کے یہاں ٹک ہی نہیں سکتے۔ اپنی پہچان، اپنے طاقت و محنت پر بھروسہ اورممکنات کو سمجھنے کا تعلق بھی بصیرت سے ہی ہوتا ہے، میں کیا نہیں کرسکتا، وہ کیا ہے جو میں نہیں کرسکتا، کیا دنیا کے تمام معرکے انسانوں نے سر نہیں کیئے ہیں؟ تمام ایجادات کا تعلق انسانی بصیرت سے نہیں ہیں؟ تمام ناکامیوں کے پیچھے انسانی تعلقات کے تو ازن کا بگاڑ والے عوامل کارفرما نہیں ہیں؟
ہم بہترین سپاہ و سپاہ سالار بن سکتے ہیں، اگر ہمارا مقصد اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ہم مثالی اور بہترین رہبر بن سکتے ہیں اگر ہمارا مقصد اپنے لوگوں کو ایک محفوظ خوشحال اور باعزت زندگی کا حق دلانا ہے، کون ہے جس سے ہمارے لوگوں کی جان، مال، عزت، آزادی سب کو خطرہ ہے یا جس نے ہمارے لوگوں کی جان، عزت، مال، آزادی سب کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ وہ دشمن پوشیدہ نہیں، کون ہیں جو ہمارے قومی طاقت کی تشکیل میں رکاوٹ ہیں؟ روایات، مفادات، روایتی حیثیت، علاقائی وگروہی مفادات؟ کیا وہ بھی آج پوشیدہ ہیں، ہرگز نہیں، جنگی قبائلی سیاسی سورماؤں کے بیچوں بیچ ایک لاغر بدن جوانسال اٹھ کر وہ کر دیکھتا ہے جسکا کوئی تصور نہیں سکتا۔
ریحان کہتا ہے قوم ہے، طاقت ہے، وقت ہے، منزل ہے، مقصد ہے، سب کچھ ہے ،حوصلہ نہیں ہمت نہیں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں مجھ میں ہے، حوصلہ اور ہمت میں جان سے گذر جانے کا جذبہ رکھتا ہوں، میں جاؤں گا، وقت یہی ہے اس فیصلے کی ضرورت ہے میرے ہم راز بہت ہیں مجھے یقین ہے میرے قدموں کے نشانات کبھی بھی ماند نہیں پڑیں گے میرے قدموں کے نشانات کو کوئی بھی آندھی و طوفان ڈھک نہیں سکیں گے کیونکہ میں اپنے بزرگوں کے راہ پر گامزن ہوں، میں حق، سچ اور حقیقت کی راہ پر گامزن ہوں۔
رازق جان ایک درد بھرے مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے کہ دیکھو قوم کے تیرزن تم حیثیت اور ذات پات کے ترازو میں حقیقت کو مسخ کرکے اپنے آپ اور اپنے بھروسے والوں کو دھوکہ دے رہے تھے، وفا اور قربانی کو اپنی میراث سمجھ کرروایتی قصے اور کہانیوں کے حوالے کرچکے تھے آج میں نے تمہارے قصہ و کہانیوں کے صندوق سے وفا و قربانی کو نکال کر اپنے سر کا تاج بنا لیا۔ دیکھو اور اچھی طرح سمجھو کہ یہ جنگ صرف اقتدار کیلئے نہیں ہے، یہ جنگ آزادی ایک باعزت اور باوقار زندگی کیلئے ہے، یہ گرم لہو حاکموں کی تبدیلی کیلئے قربان کرکے نہیں بہایا جارہا بلکہ آزادی، اقتدار اعلیٰ کے ساتھ ایک مثالی انصاف کیلئے بہایا جارہا ہے اضل جان اور رئیس جان ایک قہقہہ لگا کر کہتے ہیں دیکھو بھائیوں ہمارے لہو کا معیار کردار سے انصاف کا نام ہے، اس دنیا میں جو چیزیں جتنا تمہیں عزیز اور پسند ہیں اتناہی ہمیں بھی عزیز و پسند ہیں، ہم بھی ہر اس رشتے اور تعلق سے اتنا ہی محبت کرتے ہیں جتنا تم اپنوں سے کرتے ہو لیکن شاید ہم اپنے دشمنوں سے کچھ زیادہ ہی نفرت کرتے ہیں، ہمیں وقت کی کمی اور تقاضوں کا احساس کچھ زیادہ ہی ہے لیکن ہمارا یقین محکم ہے کہ ہمارے احساس سے ہی تمہارے احساس کی بیداری ممکن ہوگی۔ جس راہ پر ہم چل پڑے وہاں سے ہم جسمانی طور پر تمھارے بیچ نہ رہیں، لیکن فکری حوالے سے ہم تاریخ کا ایک زندہ باب ہونگے جو ہر قدم پر محکوم و مظلوم انسانوں کی رہنمائی کرینگے انکو اپنے آپ اور اپنے طاقت پر بھروسہ کرنا سکھائیں گے، پست حوصلوں اور ٹوٹے امیدوں کو جلا و بلندی بخشیں گے، حقیقت و سچائی کا ہر حال میں ساتھ نبھانا سکھائیں گے، اپنوں کے بہتر مستقبل کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کرنا سکھائیں گے، بہادروں، جانبازوں و سربازوں کی ایک الگ شناخت کرائیں گے، بس ایک کام کرو حقیقت کو پہچانو حقیقت کے ساتھ چلنا سیکھو، حقیقت کی گہرائیوں، تلخیوں اور سختیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے انکو اپنا ہمت اور حوصلہ بناؤ، خوف اور خوش فہمی سے نکلو، ارادوں کو عمل کا جامہ پہناؤ، دیکھو مرنے پر دھاڑیں مار مارکر رونا روتے روتے لاشوں کو کفن پہنانا اور قبر میں اتارنا، تیسرے چالیسویں تک سوگ منانا سالوں جدائی کا ماتم چلانا، روایات میں ارادوں کو دفن کرنا ہم نے بدل دیا، دیکھو غور سے ہم نے بدل دیا بیرک کا رنگین کفن بناکر چلتی سانسسوں کے ساتھ اوڑھنا، اپنوں کو بوسہ دیکر گلے لگانا اور ہنستے ہنستے رخصت ہونا آگ اور خون میں لپٹ کر فنا ہوکر ابدی طور پیداہونا ہم نے سکھایا، ہر کمزوری میں جو پوشیدہ طاقت ہے اس سے تمھیں روشناس کرایا دیکھو اور غورکرو بس اب تم بینائی اور سماعت کو ذرا بصیرت سے ملاو پھر دیکھو تم اپنے آپ کو کبھی بھی کسی بھی حالت میں بے بس نہیں پاوگے آو ہمارے ساتھ چلو آج کی حقیقت کو ہم نے پہچان لیا کل کی حقیقت کو جاننے کے لئے قدم بڑھاو۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔