لاپتہ افراد کے بارے میں ​پاکستان کے انکوائری کمیشن کے اعداد و شمار گمراہ کن ہے ۔ بی این ایم

134

بلوچستان میں ڈاکٹر مالک اور ثنااللہ زہری کی وزارت اعلی کے دوران صوبائی سیکریٹری داخلہ اور وزیر داخلہ نے کئی آپریشنوں میں بالترتیب ہزاروں افراد کو حراست میں لینے کا دعوی کیا۔ آج تک کسی کو بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ بلوچ نیشنل مومنٹ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے لاپتہ افراد کے بارے میں قائم انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سرکاری اور غیرسرکاری ادارے بلوچ لاپتہ افراد کی تعداد کو متنازعہ بنانے کے لئے تمام حدوں کو پار کر گئے ہیں۔ کل کے جاری کردہ اعداد و شمار لاپتہ افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے سوا کچھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام ادارے بشمول عدلیہ بلوچ نسل کشی میں فریق بن چکے ہیں۔ ان سے بلوچ قوم کو کوئی توقع نہیں۔ وقتاََ فوقتاََ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بلوچستان میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ افراد کی من گھڑت اور حقیقت سے کوسوں دوراعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان بھر میں صرف 899ل وگ لاپتہ کئے گئے ہیں۔ ہم اسے مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ انکوائری کمیشن پاکستان کے جنگی جرائم کو چھپانے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف مقبوضہ بلوچستان میں جنوری سے اکتوبر تک ایک ہزار کے قریب لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں اور وہ لوگ لاپتہ نہیں بلکہ پاکستان کے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے زندانوں میں انسانیت سوز تشدد سہہ رہے ہیں۔ اگر سندھ اور پختونخواہ سے لاپتہ افراد کی تعداد کو بلوچستان کی تعداد کے ساتھ شمار کیا جائے تو لاپتہ افراد کی تعداد جسٹس جاوید کمیشن کی گمراہ کن تعداد سے کئی گنا زیادہ ہوجاتے ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ جب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کرلیا تو اس پر شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ بلوچ ہزاروں کی تعداد میں فوج کے غیر قانونی تحویل میں ہیں۔ مشرف دور کے اوائل سے 2001 میں اصغر بنگلزئی سمیت کئی بلوچوں کے اغوا کے بعد اغوا ہونے کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرف دور میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار افراد کو حراست میں لینے کا دعوی کیا لیکن کسی کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ بلوچستان میں ڈاکٹر مالک اور ثنااللہ زہری کی وزارت اعلی کے دوران صوبائی سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کئی آپریشنوں میں بالترتیب نو ہزار اور تیرہ ہزار افراد کو حراست میں لینے کا دعوی کیا۔ آج تک کسی کو بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ صرف مزکورہ تعداد پچیس ہزار سے زائد ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ پانچ سالوں سے پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی بربریت اور بلوچ نسل کشی پر مبنی دستاویزی رپورٹ ہر مہینے جاری کرتا آ رہا ہے جس میں فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اٹھانے جانے والوں کی مکمل تفصیلات موجود ہوتے ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ جس طرح پاکستان عالمی برادری میں اپنی ساکھ اور اعتبارکھوچکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ دار عالمی ادارے بلوچستان میں انسانی المیے کا نوٹس لیں اور پاکستان خلاف راست اقدام اٹھائیں۔