فلسفہ فدائین – نودان بلوچ

216

فلسفہ فدائین

نودان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عام طور پر ہم زندگی کی تعریف یوں کرتے ہیں کے جب تک سانسیں چل رہے ہوں ہم اسے زندگی کا نام دیتے ہیں، مگر ہم آج دنیا کے حالات دیکھیں تو زندگی کا تعریف کچھ یوں ہمارے سامنے واضح ہوگا کہ آج زندگی نام ہے مقابلے کا جو دو لوگوں کے بیچ، دو گروپوں کے بیچ یا دو قوموں کے بیچ ہو۔

مقابلہ جب دو لوگوں کے بیچ ہوتا ہے تو نقصان ایک فیملی کا ہوتا ہے اور دو گروہوں کے بیچ ہوتا ہو نقصان دو گروہوں کا ہوتا ہے لیکن جب مقابلہ دو قوموں کی بیچ ہو تو نقصان نسلوں تک جاتا ہے۔

قوموں کے اس مقابلہ آرائی سے جب تک ایک قوم اپنا سر جھکا کر دوسرے قوم کی بادشاہی قبول نہیں کرتا، انکے بنائے ہوئے اصول اور قوانین کی تحت زندگی بسر نہیں کرتا تو انہیں گنہگار تصور کرکے سزا دیا جاتا ہے، بد قسمتی سے آج بھی ہمارا قوم غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے، جب پاکستان نے قلات پر حملہ کرکے بلوچستان پر قبضہ کیا۔

اُس وقت بلوچستان میں شعور نا ہونے کے برابر تھا، وہاں مقیم لوگوں کو کچھ علم ہی نہیں تھا کے ملک پر ایک پنجابی قابض ریاست نے حملہ کرکے ہمارے حکمرانوں کو شہید کردیا ہے اور ہمارے ملک پر حاکمیت کر رہا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں سرداری کا رواج تھا جنہیں قومی بقا سے زیادہ خود کی سربراہی عزیز تھی، اسی محدود سوچ نے دشمن کو اور زیادہ حوصلہ دیا چونکہ دشمن چالاک تھا اسکے پاس ماہر نفسیات اور تعلیم یافتہ اشخاص تھے تو انہیں بلوچوں کی نفسیات سمجھنے میں دشواری نہیں ہوئی

بلوچوں کی نفسیات کے مطابق ان پر حکمرانی کرتا رہا اور بلوچ ساحل و وسائل لوٹتا گیا لیکن جب لوگوں میں شعور آیا، زانت آیا تو باشعور لوگوں نے اپنے بنیادی حق کی بات جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور آزادی کی بات اسکے لئے اٹھ کھڑے ہوئے بندوق لہراتے قابض سے جنگ کا اعلان کیا۔

دشمن نے ناپاک عزائم سے اس بلند ہوتے آواز کو دبانے کی کوشش کی لیکن بلوچ قوم کے باشعور اشخاص دشمن کے ہر چال کو بھانپ چکے تھے، اسلیئے دشمن انہیں بہکا نا سکا، زرخریدوں کو خرید لیا، سرداروں کو مراعات فراہم کیئے پر بقول شہید ٹک تیر کے نواجون بھیڑ بکری یا کسی سرادر کے سپاہی کے طور پر نہیں اٹھے تھے بلکہ آج کا نواجون لائبریری سے نکل کر پہاڑوں پر وطن کی جنگ لڑ رہا ہے۔

جب دشمن سمجھ چکا تھا کہ اب اسکے ناپاک طریقہ کار ناکام ہوچکا ہے تو اسکے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا، ظلم جارجیت کا اس نے اپنی طاقت سے بلوچ قوم پر جارحیت کا آغاز کیا، آپریشن کیئے بمبارمنٹ کیئے اور گدان گدان کو گولیوں کے بھوچاڑ سے بھوند ڈالا، بلوچ قوم کے تعلیم یافتہ طبقات کو جبری طور پر لاپتہ کرکے انکی تشدد زدہ لاشیں جنگلوں اور ویرانوں میں پھینکے تشدد کی انتہا کو چھو لیا۔

شروعات میں کچھ وجوہات سے جنگ کو زیادہ تیز نہیں کیا جاسکا، صرف دور دراز علاقوں اور پہاڑوں میں محدود رکھا گیا، ان وجوہات میں ایک اہم وجہ مالی حوالے سے کمزوری تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اب تک پورا بلوچ قوم اس جنگ سے ناواقف تھا اسلیئے جنگ کچھ علاقوں تک ہی محدود تھا۔

لیکن جہد سے وابستہ لوگ سمجھ چکے تھے کہ بغیر قومی حمایت، انفرادی جہد سے آزادی لینا ناممکن ہے، اسلیئے دشمن کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی توجہ دینا شروع کردیا، آہستہ آہستہ یہ جنگ پورے بلوچستان میں پھیل گیا، لوگوں میں شعور آگیا اس دور میں انقلاب نے ایسے انقلابی پیدا کیئے جن کے قربانیوں نے پورے قوم کو شعوری حوصلہ دیا اور اس جنگ نے پوری قوم کی حمایت حاصل کرلی۔

اُس دؤر سے اس دؤر تک جنگ کو ایک توازن سے برقرار رکھ کر لڑا جا رہا تھا لیکن آج کے موجودہ دؤر میں جنگ ایک الگ مرحلے میں داخل ہوا، جہاں 7 فروری پارود آپریشن کے بعد بی ایل اے نے اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے اعلان کیا کے اب پہاڑوں میں رہنے کے بجائے شہروں میں دشمن پر کھلا وار کرینگے، اس کے بعد پہلے پہاڑوں میں بیٹھ کر دشمن کا انتظار کیا جاتا تھا آج دشمن کے حصار میں گھس کر اس سے دوبدو جنگ آغاز ہوا ہے، اس جنگ کو اس مرحلے تک پہنچانے والوں کو ہم سب فدائین کے نام سے پہچانتے ہیں۔

گذشتہ روز چینی قونصلیٹ پر کامیاب حملے کے بعد ریاست کے چال ناکام ہوئے، جہاں پاکستان ہر دن بلوچوں کی اس جنگ آزادی کو مٹی بھر دہشتگری کا نام دیکر انہیں انڈیا کا پراکسی بتارہا تھا، لیکن فدائیوں نے اپنے اس حملے میں دنیا کے سامنے یہ واضح کر دیا کہ بلوچ عالمی جنگی قوانین کے تحت قومی بقاء اور آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ چینی قونصل خانے میں موجود عام لوگوں کو ایک. خراش تک نا آنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچوں کی جنگ آزادی انسانیت کے خلاف نہیں بلکہ بقائے انسانیت کیلئے ہے۔

اگر آج بلوچ کسی ملک. کے پیرول پر پیسے لیکر پاکستان پر حملہ کرتے تو وہاں موجود ایک بھی شخص وہاں سے زندہ سلامت نہیں بچتا۔ اگر بلوچ دہشتگرد ہوتے تو وہاں موجود لوگوں کے گولیوں سے چھلنی لاشیں ملتی، اُنکے کٹے ہوئے سر ملتے، جیسے پاکستان کے خود کے پالے مذہبی دہشت گردوں نے 26 نومبر 2008 کو انڈیا پر حملے میں کئی عام معصوم لوگوں کی جان لے لی-

بلوچ اپنے ازادی کی جنگ لڑرہے ہیں، جو ہمارا بنیادی انسانی حق ہے، آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اُسی حق کیلئے بلوچ قربانی دے رہے ہیں اور ہمارا ایمان ہے، ہمارا یقین ہے کہ بلوچ اس مقصد میں ضرور کامیاب ہوگا، اور اپنی سرزمین پر قابض کو شکست دے کر آزادی کا روشن سورج اپنے نام کر کے رہے گا۔

آج ان مخلص، ایماندار اور باشعور دوستوں نے اپنے لہو سے جہد کو ایندھن فراہم کیا، جس کا مثال کچھ یوں ہے کہ کسی بوڑھے شخص کو واپس جوانی تحفے میں ملا ہو، آج ہم اپنے فدائی دوستوں کے جدائی پر غمزدہ نہیں کیونکہ ہم سے جُدا نہیں ہوئے ہیں، وہ آج ہم میں زندہ ہیں اُنکا سوچ، نظریہ مقصد ہمارے اندر موجود ہے۔

عام شخص تب تک زندہ رہتے ہیں، جب تک اسکی سانسیں حرکت میں ہوں لیکن ایک انقلابی کی زندگی تب شروع ہوتا ہے جب اسکا ملاقات موت سے ہوتا ہے، جن کی موت کے بعد انکا نظریہ انکا مقصد دنیا میں پھیل جاتا ہے جنکی موت ہزاروں لوگوں کی زندگی بنتا ہے، ہزاروں لوگوں کا مقصد بنتا ہے۔ وہ پہلے زندہ نہیں تھے، وہ آج زندہ ہیں جنہوں نے آج ہر ایک انسان کو زندگی کا اصل معنی بتایا کہ زندگی بس سانس لینے کا عمل نہیں، زندگی وہ نہیں جو خود کیلئے گذاری جائے، زندگی وہ ہے جو دوسروں کی بہتری کیلئے وقف کیا جائے، زندگی وہ ہے جو دوسروں کو سانس فراہم کرے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔