شور پاردو کے پہاڑ، امیر اور بلال
تحریر۔ خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر انسان کو منطقی حوالے سے تجزیہ اور مشاھدہ کیا جائے، ہر انسان کے دماغ میں پورا دنیا ہوتا ہے اور ہرکسی کا اپنا mind set ہوتا ہے، اور ہر کسی کے پاس بہت سارے انسانی صلاحیتیں ہوتے ہیں، یہ صلاحیتیں کب اور کیسے active ہوتے ہیں، اگر active ہوتے ہیں۔ پھر کیوں کس لئےاور کیسے؟
جب بھی انسان اپنے دماغ میں ایک خاکہ اور تصور کو بٹھاتا ہے، اس کی منظر کشی کرتا ہے تو اُس وقت تک وہاں پہنچنے تک ناکام ہوتا ہے بلکہ وہ صرف ایک ادھورا خواب ہوتا ہے، جب تک انسان ایمانداری سچائی اور پورے لگن کے ساتھ اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا ہے، یعنی ایمانداری، سچائی اور لگن برائے عمل، انسان کے دبے ہوئے صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے، انسان کو باصلاحیت انسان کے روپ میں لاتا ہے۔ اگر یہ تین چیزیں کمزور ہونگے یا ان کا وجود نہیں ہوگا تو انسانی صلاحیتوں کا اجاگر ہونا یا active ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
بے عمل اور تصوراتی سوچ چاہے وہ کتنے بھی تعلیم یافتہ ہوں، شعور نما ہو سیاسی سرکلوں میں سیاسی لیکچر دے رہا ہو اور دماغ میں جو بھی خاکہ بٹھاتا ہو، وہ سب صرف اور صرف کتابی سوچ اور باتیں ہونگے. وہ بے اثر ہونگے، میرے خیال میں جب تک کسی بھی چیز کا انسان کو احساس نہ ہو وہ نہ کہ ایماندار ہوگا نہ کہ سچائی سے اور لگن سے کوئی عمل کرے گا۔
دنیا کے باقی انسانوں کو چھوڑیں، ہم اپنے ہی بلوچ قوم کو دیکھتے ہیں، ہمارے اندر کس حدتک انسانیت اور قومیت کے احساسات ہیں؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے کتنے نوجوان اغوا ہو ئے ہیں ہورہے ہیں؟ کیا ہمیں احساس ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سامراج نے کس طرح اپنے ٹارچر سیلوں میں تشدد کرکے اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی ہیں؟ یا ہم نے کبھی سوچا ہے یہ بلوچ مائیں، بہنیں اور یہ چھوٹی چھوٹی بچیاں دن رات سردی میں جمع ہوکر آج کیوں چیخ و چلا رہے ہیں؟ کس لیئے سڑکوں پر ٹھوکر کھاکر احتجاج کررہے ہیں؟ یا پھر اتنے سارے گھر ہمارے سامنے پاکستان کی آرمی اور فرنٹیرکور جلارہے ہیں، گھروں کے چراغ بجھ رہے ہیں، کبھی ان کے بارے میں ہم نے سوچا ہے؟ کیا ہمیں احساس ہوا ہے کیوں کس لئے یہ ظلم ہمارے ساتھ ہورہے ہیں؟ کبھی نہیں کیونکہ ہمیں اپنے غلامی کا احساس نہیں ہے۔
یہ جو صاحبان پالیمٹ میں بیٹھ کے اپنے آپ کو بلوچ قوم کا لیڈر کہتے ہیں، بڑے بڑے دانشور کہلاتے ہیں، کیا ان سب کو علم نہیں؟ یا پھر یہ سب بے حس ہیں؟ میرے خیال میں ان سب کو علم اور تعلیم ہے، مگر وہ شعور اور احساس نہیں جو ضمیر کو جھنجھوڑ دے، سب دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہوکر سامراج کے ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کو احساسِ انسانیت نہیں ہے، بے حس لوگ ہیں، صرف اور صرف اپنے ذاتی خواہشات اور اپنے سیاست کو چمکانے کیلئے پارلیمٹ میں بیٹھ کے قوم کو جھوٹا دلاسہ دے رہے ہیں. کیا جس انسان کو احساسِ انسانیت نہیں ہو، وہ انسان کہلانے کا حقدار ہوگا؟
اگر ہم ذاتی خواہشات کی بات کریں تو پھر کیا ریحان بلوچ کو کسی بھی چیز کے خواہش نہیں تھا؟ وہ اس دنیا کی عیش و آرام نہیں چاہتا تھا؟ یا پھر رازق، رئیس، اور ازل جان، درویش کو اس دنیا کی خواہشات اور عیش و آرام اپنے ماں، باپ، بہن، بھائی، دوست یہ سب اتنے عزیز نہیں تھے؟ اور بلوچ قوم کے باقی جو نوجوان اپنے جان کی قربانی دے چکے ہیں، ان سب کو محبت نہیں تھا اپنے زندگی سے؟ اگر یہ سب کچھ ان شہیدوں کو عزیز تھے تو پھر کیوں اتنی بڑی قربانی دی؟ فرق یہ ہے کہ ان شہیدوں کو اپنے اور اپنے قوم کے غلامی کا احساس ہوا تھا۔
ہم کچھ دوست سردی کی وجہ سے انگاروں کے گرد بیٹھے شہیدوں کے بارے میں بات کررہے تھے، ایک دوست نے کہا کہ میں اور میرے کچھ دوست عید کی شام بازار گئے باقی لوگوں کے طرح ہم بھی شاپنگ کررہے تھے، بے چینی سے عید کے دن کا انتظار تھا کہ کیسے صبح ہوگا اور ہم اپنے نئے کپڑے، نئے جوتے پہنینگے، خوشیاں منائینگے اور پکنک کا پرو گرام بنائینگے وغیرہ وغیرہ خیر صبح ہوا اور ہم عید نماز جانے کی تیاری میں تھے ایک دوست نے فون کرکے بتایا سمیح بلوچ کو شہید کیا گیا ہے۔
وہ عید کا دن میرے لئے محشر کے دن سے کم نہیں تھا، اُسی دن سے میں نے شہید سمیع کے فکر کو اپنا منزل سمجھ لیا اور سمیع جان کے دوستوں کو ڈھونڈنے نکلا، یہ 2010ء کی بات ہے. میں نے ہر جگہ کوشش کیا کہ پہنچ سکوں، ایک دن فیس بک پر شہید رازق جان سے میرا حال حوال ہوا اور اُس نے مجھے دعوت دیا، میں تو اتنا خوش ہوگیاتھا کہ اپنی خوشی آپ لوگوں سے بیان ہی نہیں کرسکتا۔
خیر 8 برس انتظار کرنے کے بعد میں آیا اور اب شہید رازق جان نہیں ہے ہمارے درمیان لیکن اس کی سوچ و فکر اور کردار کی نشانیاں آج بھی شور پارود کے پہاڑوں کی ذینت بن چکے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے آخر رازق کیا چیز تھا۔
ایک اور دوست نے کہا میں نے تو پھلین امیر جان کو نہیں دیکھا، جب سے اُس کے کردار، ایمانداری، سچائی اور اُس کے بہادری کے بارے میں سنا ہے، میں نے پھلین کا فکر اپنے زندگی کا مقصد و اپنا منزل سمجھا ہے. میں یہاں اگر ایسا محسوس کررہا ہوں تو کہیں نہ کہیں امیر جان سے ملاقات ہوگا، ایک دن کسی کام سے ہم جارہے تھے. جاتے جاتے مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا، میرا بدن کانپ رہا تھا میں نے اپنے قریب ایک دوست سے پوچھا یہ کونسا جگہ ہے، اَس دوست نے کہا یہ وہ وتاخ ہے جہاں پھلین شہید امیر المک شہید ہوا، میں امیر جان کا نام سن کر عجیب سی کیفیات میں مبتلا ہوگیا، اُس کے جائے شہادت پر ہم جاکر پہنچےمیں وہاں گھنٹوں تک سوچنے لگا کہ وہ کیسے لمحے ہونگے جب یہاں امیر جان دشمن کے ساتھ سینہ تان کر جنگ کررہا ہوگا اور گولی ختم ہونے پر اخری گولی کا انتخاب اپنے لیئے کیا ہوگا، وہ کیسے لمحے ہونگے اور کیا کیفیت ہوگا۔ کوئی بھی انسان اپنے آپ کو کیوں مارے گا؟ بغیر کسی احساس کے؟ یہ وہ احساس ہے امیر جان تنظیم کے پورے راز دشمن کو نہ دیتے اپنے سینے میں دفن کرکے اپنے ساتھ لےگئے۔
وہ دوست خاموش ہوا میں نے کہا آپ کو امیر جان کی قبر پر لیجاؤں، نزدیک ہے دوست نے جواباً کہا نہیں میں امیر جان کے قبر پر گیا شاید وہ لمحہ برداشت نہیں کر سکوں گا۔
تو ایک یہ لوگ ہیں 10 سال تک انتظار میں ہیں اور تڑپ رہے ہیں کہ میں کب اور کیسے شہید سمیع جان کے دوستوں سے ملوں گا اور اُس کے فکر کو آگے لیجاؤں گا، اور کچھ وہ بے ضمیر لوگ بھی ہیں جو ہر چیز سے واقف ہوکر بھی حیوانوں کی طرح ہیں ایسے انسانوں کیلئے امیر جان کہتے تھے اگر کسی کو احساس نہ ہو وہ کچھ نہیں سمجھے گا۔