شناخت کا مارا ایک شخص – زید ارشاد بلوچ

392

شناخت کا مارا ایک شخص

 تحریر : زید ارشاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پروفیسر نما ایک اجنبی شخص سوٹ بوٹ پہنے، فرینچ داڑھی اور ہلکی مونچھوں کے ساتھ نہایت ہی پریشان، بے سکونی کی سی کیفیت میں کچھ تلاش کر رہا تھا۔ اسکے تیز قدم اور حیرت زدہ نظریں ادھر ادھر کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھے، چلتے چلتے اچانک وہ ایک کینٹین نما ہوٹل کے پاس جاکر رک گیا، جو یونیورسٹی کے گیٹ سے چند قدم کے ہی فاصلے پر تھا۔

یہاں بہت شور تھا، برتنیں بج رہیں تھیں، قہقہوں کی آواز تھی، ایک کونے میں کوئی اکیلا شخص اس شور سے بے توجہ بیھٹا کچھ سوچ رہا تھا اور اکثر ارد گرد کے ماحول سے بے خبر گروہ کی شکل بنائے گپ شپ کرنے، چائے پینے اور دھواں پھونکنے میں مصروف تھے، کچھ پلیٹوں کے لذیذ کھانوں میں مگن کھانا کھا رہے تھے اور غالباً 12 یا 14 سال کے لگ بگ 2 بچے کبھی ادھر کبھی ادھر لوگوں کی خدمت میں مصروف تھے۔

اس اجنبی شخص کی نظریں اب بھی اسی کینٹین میں گھوم رہے تھے، مگر کہیں ٹک نہیں پا رہے تھے۔ وہ چند قدم کینٹین کے اطراف چلتا رہا اور طلبہ کے ایک گروہ کی جانب بڑھا جو کرسیوں کا گول دائرہ بنائے بحث ومباحثے میں مصروف تھے۔ اجنبی شخص انکے قریب جا کر رک گیا اور سوالیہ نظر میں انہیں تکتے بول پڑا تم سب یہاں پڑھتے ہو۔

جی ہاں ہم طالب علم ہیں۔ یہ جواب سن کر اجنبی پروفیسر سوچتے سوچتے مگر بغیر رکے بولتا رہا مجھے اپنے ایک ریسرچ میں طلبا کے مدد کی ضرورت ہے کیا آپ سب اپنے اس قیمتی وقت سے 5، 10 منٹ نکال کر میری مدد کرینگے۔

کہیں سے ہاں میں جواب سن کر!
جی شکریہ مجھے یہی امید تھی۔ آپ لوگ ہی میری مدد صحیح طرح کر سکتے ہیں، آپ لوگ تاریخ اور حالات حاضرہ بھی پڑھتے ہونگے۔

تسلی بھرا سانس لیتے ہوئے آخر کار پروفیسر نے کندھے پر لٹکے بیگ سے چند صفحے نکال کر سب میں بانٹ دیا۔
مگر ساتھ ہی سب کو ہدایت کر دی کہ اپنا اپنا مختصر سا جواب ایک دوسرے کو بغیر بتائے اس صفحے پر لکھ کر دیں تا کہ آپ سب کی اپنی رائے ایمانداری کے ساتھ اس ریسرچ کا حصہ بن سکیں۔

قریب 10 منٹ بعد جب سب نے اپنے تحریر کردہ کاغذ پروفیسر کے ہاتھ تھمائے تب اس شخص نے جانے کے بجائے وہیں بیٹھ کر باری باری صفحے کھول کر پڑھنا اور سنانا شروع کر دیا۔

پہلی پرچی
بلوچ ایک تہذیب یافتہ غیور قوم ہے جس کی بہادری، وفاداری، مہمان نوازی کی اپنی مثال ہے۔

دوسری پرچی
یہ ایک جاہل اور لڑاکو قوم ہے، جس مین شعور نام کی چیز نہیں ان پڑھ، نا سمجھ ہیں جو کسی کے بہکاوے میں آجاتے ہیں۔

تیسری پرچی
اچھا وہ بلوچی۔۔! یہ آفت زدہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو احساس محرومی کا شکار ہیں اور پشتو بولتے ہیں۔

چوتھی پرچی
،وہ ظالم قوم ہے انکی بڑی شلوار اور مونچھیں ہوتی ہیں اور پنجابیوں کو مارتے ہیں۔

پانچویں پرچی
یہ ایک مہاجر قبیلہ ہے جو مخلتف علاقوں میں آباد ہوئے ہیں گلہ بانی کرتے ہیں، بکریاں چراتے ہیں، مسافروں سی زندگی گزارتے ہیں۔

چھٹی
یہ ایک گمشدہ قوم ہے، کئی سالوں سے یہیں رہتے ہیں اور اپنی زبان ثقافت بھول چکے ہیں، مگر نام کے سامنے پھر بھی بلوچ لکھتے ہیں۔

ساتویں
بلوچ اک مظلوم قوم ہے، جو مقبوضہ کشمیریوں کے طرح کی زندگی گزار رہے ہیں۔

آٹھویں
یہ جاہل ،مذہبی، فرقہ پرست اور شدت پسند لوگ ہیں جو غیر سنیوں سے نفرت کرتے ہیں انکا قتل کرتے ہیں۔

سارے جواب پڑھ کر اجنبی شخص کھڑا ہوا اور جذباتی کیفیت میں چند الفاظ بولے۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
میں بھی بلوچ ہوں۔

(اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد، آہستہ آہستہ بولتے بولتے تقریر شروع کردی)

اور یہ سوال جو میں نے پوچھا صرف ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ میری شناخت ہے۔ جب آپ کسی سے میری شناخت پوچھتے ہیں تو آپکو یہی جواب ملتا ہے، جو آپ سب نے تحریر کیا ہے، مگر کیا آپ نے کبھی مجھے جاننے اور پہچاننے کی کوشش کی ہے؟ یا مجھ سے کبھی پوچھا ہے کہ میں کون ہوں، کس قوم سے ہوں۔ آیئے میں بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں اور میں کیسی قوم سے ہوں۔

میں نا بلوچی ہوں ، نا براہوئی، نا لاسی ، نا سرائیکی
میں صرف اور صرف بلوچ ہوں۔
میں بلوچستان میں رہوں یا پنجاب میں، سندھ، خیبر میں رہوں یا افغانستان، یورپ، و خلیج میں میری پہچان صرف بلوچ ہے۔

وہ بلوچ جسکی پہچان کی بات آتی ہے تو فخر سے کہتا ہے
چکیں بلوچانی ما چکین بلوچانی
ما کوپاگیں پسانی ما جامگین ماسانی
ما پنجگیں براتانی ما لجیں گہارانی

اسکے بعد اکبر و خیر بخش، آغا نوروز، یوسف عزیز مگسی، عزیز کرد، نصیر خان نوری و محراب خان کی داستانین ہی میری پہچان بتاتے ہیں۔

اور پھر میں اپنی پہچان کیلئے بلوچستان، پاکستان، ایشیا، برصغیر ، ہندو مسلمان، آریان و عربوں سے کہیں پہلے کی ایک تاریخ کھول بھیٹتا ہوں یعنی آج سے 9 ہزار سال پہلے کی ایک تاریخ جہاں مہر گڑھ میں بسا اک تہذیب یافتہ بلوچ ملتا ہے۔

اگر اپنے تاریخ کی بات کروں تو۔۔۔
مگر آج!
افسردگی ظاہر کر کے دوبارہ بولنا شروع ہوا
آج میں کون ہوں؟
آج میں ایک ایسا بلوچ ہوں جسکی شناخت مٹ چکی ہے۔
آج میں اک ایسا بلوچ ہوں جو جانتا ہے کہ اس ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ کر سکتا ہوں۔ ان جدید قوموں سے کہیں زیادہ ڈیولپڈ قوم بن کر دکھا سکتا ہوں۔ اور اس کے لئے جس ہتھیار “علم” کی ضرورت ہے اسے بھی پہچان سکتا ہوں اس کی شدت سے پیاس بھی ہے اور اسکے حصول کے لئے قربانیاں بھی دے سکتا ہوں اور دے رہا ہوں۔ جی میں ایک با شعور بلوچ ہوں۔

مگر با شعور ہو کر بھی میں بے بس ہوں۔
میں بے بس ہوں کیونکہ میں کامیابی کو پہچان کر اس راستے تک چل نہیں سکتا۔
میں بے بس ہوں کہ اپنے خواہش کا اظہار نہیں کر سکتا
میں بے بس ہوں کہ اپنے حق کا دعویدار نہیں ہو سکتا
ہاں میں بے بس ہوں جو غلط کو غلط نہیں بول سکتا
میں بے بس ہوں کہ صحیح کو صحیح نہیں بول سکتا۔

غلط فہمی میں مسخ ہوا پہچان تم جیسے تعلیم یافتاوں کو بھی نہیں سمجھا سکتا۔
ان پھیلائے ہوئے جھوٹ سے بھرے پروپگنڈوں کا جوا ب نہیں دے سکتا۔

بے بس ہوں مگر بےشعوریت کو پہچانتا ہوں۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بےشعور ہو کر بھی بیگانہ ہیں اور میں انہیں سمجھاونگا انہیں آئینہ دکھاونگا۔
میں خاموش نہیں ہونگا اور ہر ایک سے اپنی شناخت کراونگا، کیونکہ میں شناخت کا مارا ایک بلوچ ہوں۔

یہ الفاظ کہتے کچھ دیر وہیں خاموش بیھٹا رہا اور پھر اپنا بیگ دوبارہ کندھے پر لٹکائے کسی دوسرے تعلیمی ادارے کی طرف نکل پڑا۔

———————–
زید ارشاد بلوچ
گریجوئیٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی
یونیورسٹی آف گجرات
سابقہ چئیرمین بلوچ ایجوکیشنل کونسل گجرات

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔