روس کی امریکی سوشل میڈیا پر سیاسی مہم جوئی اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے جتنا سوچا گیا تھا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2016 مین کامیاب کروانے کے لیے سیاہ فام افرادکی ووٹنگ میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے مذاق بنائے گئے جبکہ حقیقت اور مفروضوں میں فرق کم کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف امریکا کی سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آیا جو جزوی طور پر شائع بھی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ مہم ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے تک نہیں تھمی اور یہ سلسلہ امریکا میں جاری سیاسی کشمکش کے دوران سیاسی اور نسلی اختلاف کو بڑھاوا دینے کے لیے اب بھی جاری ہے۔
اس ضمن میں کی گئی 2 تحقیقات سے انتخابی مہم کے دوران امریکی سوشل میڈیا پر روس کی مداخلت کی بھرپور تصویر کشی ہوتی ہے تاہم فیس بک ، گوگل اور ٹوئٹر نے رپورٹ کے مندرجات پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
مذکورہ رپورٹ نیو نالج نامی سائبر سیکیورٹی کی کمپنی اور کمپیوٹیشنل پروپیگنڈہ ریسرچ پروجیکٹ کے تحت گارفیکا اور آکسفرڈ یونیورسٹی کے محققین نے تیار کی جو سوشل میڈیا تجزیاتی فرم تھی۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کی رپورٹ میں تمام تر تفصیلات شامل تھیں کہ کس طرح روس کی جانب سے مختلف گروپس میں پیغامات بھیجے گئے اور کس طرح سیاہ فام افراد کی ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ شکنی کی گئی جبکہ حقوق کے معاملے پر ان کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔
اس بارے میں محققین نے لکھا کہ مہم کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ افریقی نژاد امریکی کمیونٹی کے مقصد کو تیز کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے دیگر مسائل پر توجہ دی جائے۔
دوسری جانب قدامت پرستوں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کو 3 کام کرنے کے لیے کہا جارہا تھا کہ حب الوطنی اور پناہ گزین مخالف نعرے لگائیں، امریکی شہریوں کے لیے لبرلز کی پوسٹس پر غصے کا اظہار کیا جائے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
نیو نالج کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اوریجنل انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی سے وابستہ کچھ اکاؤنٹس اب بھی متحرک ہیں جنہیں رابرٹ ملر کی جانب سے 2016 کی انتخابی مہم میں مداخلت کے حوالے سے نامزد کیا گیا تھا۔
ان میں کچھ اکاؤنٹس اب چھوٹے پلیٹ فارمز تک محدود ہیں کیوں کہ بڑی کمپنیوں نے روسی مداخلت کا علم ہونے کے بعد ان کا صفایا کرنا شروع کردیا تھا۔
ریسرچ میں یہ بھی کہا گیا کہ سفارتی سطح پر روسی حکومت کے کچھ مقاصد کی تکمیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی امریکا میں روسی مداخلت خارج از امکان نہیں۔