آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی تیار کردہ، چھٹی سالانہ گلوبل ٹیرراِزم انڈیکس نامی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں، گزشتہ تین سال کے دوران کمی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2017 میں دنیا بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، اور گزشتہ تین سال سے مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”عالمی امن کیلئے، دہشت گردی آج بھی سب سے بڑا خطرہ ہے”۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ دہشت گرد حملوں نے اُن ملکوں کو متاثر کیا ہے جہاں سیاسی تشدد انتہا پر ہے۔
دہشت گردی سے متاثرہ دنیا کے 10 اولین ملکوں میں افغانستان پہلے، پاکستان چھٹے، جبکہ عراق دوسرے، نائیجیریا تیسرے، صومالیہ چوتھے جب کہ شام پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے بعد ساتویں نمبر پر مصر، آٹھویں پر کونگو، نویں پر وسطی افریقی ریپبلک اور دسویں نمبر پر بھارت۔
انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائیریکٹر، سٹیِو کے لی لیا نے لکھا ہے کہ تنازعات اور ریاستی جبر، دہشت گردی کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔
کے لی لیا کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ملکوں میں ہونے والی ہلاکتیں، دنیا میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں کا 84 فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ 10 ملک وہ ہیں جن میں سے ہر ایک میں کم از کم ایک متشدد تنازعہ جاری ہے، جبکہ آٹھ میں کسی نہ کسی طرح کی مسلح جنگ چھڑی ہوئی ہے، جن میں سے ہر ایک میں کم ازکم ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2016 کے مقابلے میں، دہشت گرد گروپ داعش کے حملوں میں 23 فیصد کمی ہوئی، جبکہ ان حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
امریکہ کی قیادت میں بننے والے اتحاد کی مدد سے، مقامی عراقیوں اور شام کی افواج نے داعش کو بہت سے اُن علاقوں سے پیچھے دھکیل دیا ہے جہاں کبھی ان کا قبضہ تھا۔ ان میں داعش کے دو مضبوط گڑھ، عراق میں موصل اور شام میں رقہ کے علاقے شامل ہیں۔
سینٹر آن نیشنل سیکیورٹی ایٹ فورڈ ہیم لا کی ڈائیریکٹر، کیرن گرین برگ کہتی ہیں کہ داعش کی طاقت میں کمی کی بڑی وجہ اُن علاقوں سے اس کا انخلا ہے۔ یہاں پہنچنے والی شکستوں سے، داعش کی ساکھ اور غیر ملکی لڑاکوں کی بھرتی میں کمی ہوئی ہے۔
ڈیوڈ گارٹینسٹائین رَوس جیسےدیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے دیگر دہشت گرد گروپ، اب بھی دنیا کیلئے خطرہ ہیں۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم، ‘فاؤنڈیشن فور ڈیفینس آف ڈیموکریسییز’ سے وابستہ ڈیوڈ رَوس کہتے ہیں کہ شام میں صرف داعش ہی نہیں ہے، بلکہ وہاں ‘حیات تحریر الشام’ جیسی دیگر تنظیمیں بھی ہیں جو کہ اصل میں جہادی ہیں اور بغاوت کا ایک الگ حصہ ہیں۔
عالمی سطح پر سن 2017 میں دہشت گردی میں کمی عراق میں دہشت گردی میں کمی کی وجہ سے ہوئی۔ یہاں امریکی پشت پناہی والی سرکاری افواج نے اُن علاقوں پر قبضہ کر لیا جو کبھی داعش کے زیرِ قبضہ تھے۔
تاہم، اس کمی کے باوجود، واشنگٹن میں قائم، ‘سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز’ کا کہنا ہے کہ داعش کے پاس اب بھی عراق اور شام میں 20 سے 30 ہزار لڑاکے موجود ہیں۔
سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز’ کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2018 میں عراقی حکومت کے خلاف داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا۔ یہ دہشت گرد گروپ ہر ماہ اوسطاً 78 حملے کرتا ہے۔
افغانستان میں سن 2017 کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں، جہاں جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں 151 فیصد جبکہ دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔
‘فاؤنڈیشن فور ڈیفینس آف ڈیموکریسییز’ سے وابستہ ڈیوڈ رَوس کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان طاقت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔
ڈیوڈ رَوس کہتے ہیں کہ ”عمومی طور پر جب کسی دہشت گرد گروپ کا زوال شروع ہوتا ہے تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے زیر قبضہ علاقے اسکے ہاتھ سے نکلتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس کے حملوں میں شدت آتی ہے”۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں یہ کمی عالمی سطح پر جاری رہے گی، اور طاقتور ملکوں کو چاہئیے کہ وہ ان حالات میں کمی لانے کیلئے کام شروع کریں جن کی وجہ سے لوگ شدت پسندی اور دہشت گردی کی جانب مائل ہوتے ہیں۔