جنرل اسلم بلوچ اور برھان وانی – ریاست خان بلوچ

1037

جنرل اسلم بلوچ اور برھان وانی

تحریر۔ ریاست خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بھارتی قبضے کے خلاف جاری کشمیریوں کی خونی تحریک سے شاید ہی کوئی ذی شعور انسان ناواقف ہو، پچھلے ساتھ دہائیوں سے جاری کشمیر کی تحریک آزادی عالمی سطح پر اپنے حق میں کئی ایک کامیابیاں سمیٹتے نظر آئی ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے کشمیر کو دی جانے والی “متنازعہ سرزمین” کی حیثیت ہو یا خود قابض بھارت کے آئین میں کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں ملنے والی ممتاز حیثیت یہ سب کشمیری حریت پسندوں کی محنت و شہادتوں کےثمرات ہیں۔

اگر کشمیر مسئلے کا موازنہ ہم بلوچستان کی تحریک سے کریں تو بلوچ اپنی سرزمین پر کیئے جانے والے پاکستانی قبضے کے خلاف اپنا احتجاج عالمی سطح پر ریکارڈ کرانے میں اس حد تک کامیاب نہیں رہا ہے. کشمیر جو باقاعدہ ایک ہندوستانی ریاست ہونے کے باوجود دنیا کو یہ باور دلانے میں کامیاب رہی ہے کہ بھارتی فوج کی وہاں موجودگی قانونی نہیں. تو وہیں دوسری طرف بلوچستان جو ایک غیر ہندوستانی ریاست ہونے اور اس کی اقتدار اعلیٰ پر شب خون مارے جانے کے بعد بھی پاکستانی فوج کی وہاں پر موجودگی قانونی تصور کی جاتی ہے۔

کیونکہ باہری دنیا آج بھی یہی سمجھتی ہے کہ بلوچوں کی بغاوت پاکستان کے اندر وسائل کے غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں ابھرنے والی ایک “low intensity insurgency ” ہے، ہم انہیں یہ باور دلانے میں ناکام رہے ہیں کہ بلوچوں کی مزاحمت انکی قومی ریاست پر بیرونی قبضے کا فطری ردعمل ہے۔

دوسری طرف بلوچستان اور کشمیر دونوں میں پچھلے 70 سالوں سے جاری پاکستانی و بھارتی قبضہ گیریت کے خلاف چھوٹی بڑی تحریکیں سر اٹھاتی رہی ہیں، حالیہ برسوں میں کشمیر اور بلوچستان دونوں اطراف مزاحمت کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے. ,2016 کو بھارتی فوج کی کاروائی کے نتیجے میں شہید ہونے والے کشمیری مزاحمتی کمانڈر برھان وانی کی شہادت نے کشمیر کی تقریباً دو دہائی سے خاموش چلی آرہی تحریک کو ایک بار پھر حرکت بخشی اور ہر ایک کشمیری کو سڑکوں پر لانے کا باعث بنی. برھان وانی کی شہادت سے لے کر آج تک کشمیر کے گلی کوچوں، شہروں دیہاتوں میں کشمیری عوام بھارت کے ہاتھوں ان کی شہادت کا غصہ بھارتی فوجیوں پر پتھر پھینک کر کر رہی ہے. یونیورسٹی کے پروفیسر، کالجوں کے طلباء سے لیکر ایک عام کشمیری کسان تک سبھی اپنے قومی سالار کے شہادت پر کھل کر بھارت سے اپنی نفرت کا اظہار کر رہی ہیں۔

کشمیریوں کے اس عوامی بغاوت کو کچلنے کی غرض سے بھارتی فوج ہر وہ ہتھکنڈا آزما چکی ہے کہ جس سے کشمیر میں لگی اس آگ کو بجھایا جاسکے، پر باغیرت اور خوف سے مبرا کشمیری نوجوان اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف استاد اسلم بلوچ جو ناصرف ایک جنگی سالار بلکہ ایک مفکر سے لیکر معلم اور ایک انقلابی سیاستدان سے لیکر ایک قومی قائد تھے جنہوں نے اپنی جوانی کے 25سال سے زائد کا عرصہ و اپنے جوانسال بیٹے تک کو قومی جدجہد کے نام پر قربان کر دیا، اس استاد اسلم کی شہادت پر کراچی سے لیکر کوئٹہ و زاہدان سے لیکر ڈی جی خان تک کی گلیوں میں بلوچ نوجوانوں کی خاموشی چیخ چیخ کر بلوچوں کی اجتماعی بے حسی کا اظہار کر رہی ہے۔

ہونا تو یہی چاہیئے تھا کہ اپنے قائد کی شہادت کے فطری ردعمل کے طور پر بلوچ عوام اور بالخصوص بلوچ نوجوان سڑکوں پےنکلتے،وکلا عدالتوں کا اور معلم و پروفیسر تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرتے اور استاد اسلم کی شہادت پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے اور ان کو خراج عقیدت پیش کرتے۔

پر صد افسوس ایسا ہوا نہیں، کوئٹہ سے تربت و خضدار سے چاغی تک سبھی کے منہ پر تالے لگ چکے ہیں، اپنی ذاتی مفادات و آرام کی پاداش میں سرگرداں ہم ان قومی سپوتوں کو بھلا بیٹھے ہیں، جنہوں نےہمارے اجتماعی مفادات کی جنگ میں اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے. جنہوں نے اپنی ذات و اپنے خاندانوں پر اپنی قوم کو ترجیح دی ہے۔

آج بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ دشمن کے خلاف بحثیت ایک زندہ قوم اٹھ کھڑے ہوں اور اس راستے کا انتخاب کریں، جس پر چلتے ہوئے استاد اسلم جیسے ویر و بہادر شہید ہوئے۔

اگر آج بھی ہم من حیث القوم اپنے فیصلوں میں تاخیر کی روایات کو توڑنے کی ہمت نہ کر سکیں، اپنے قائدین کی شہادت پر اسی طرح خاموش بیٹھے رہیں تو مستقبل قریب میں بحثیت ایک قوم ہمارے وجود کو سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کا ذمہ دار ہر وہ طالبعلم، ڈاکٹر،کسان،مزدور،شاعر، معلم و سرمچار ہوگا جو اپنی قومی ذمہ داریوں سے بیگانہ ہے۔

دیبلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔