بلوچستان میں ریاستی ادارے جب چاہے کسی بھی بے گناہ انسان کو اٹھا کر لاپتہ کردیتے ہیں، جو بھی لاپتہ افراد کے ساتھ ریاست کی نا انصافیوں پر بات کرتا ہے اسے بھج اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے – جرمنی اور لندن میں احتجاجی مظاہروں میں بی آر پی کے رہنماوں کا خطاب
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے میڈیا میں جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بی آر پی کی جانب سے لندن و جرمنی میں احتجاجی مظاہرے کئیے گئے۔
بی آر پی ترجمان کا کہنا تھا کہ جرمنی کے شہر چمنٹز میں احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد بلوچستان میں گمشدگیوں میں اضافہ اور فوجی آپریشنوں کے تیزی کو عالمی دنیا کے سامنے اجاگر کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان بھر سے ایک بار پھر جبری گمشدگیوں میں بہت ہی تیزی لائی گئی ہے خاص کر بلوچ نوجوانوں جو کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے یا جو بھی لاپتہ افراد کے ساتھ ریاست کی نا انصافیوں پر بات کرتا ہے اسے اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے جس کی مثال حال میں جیئند بلوچ کو اپنے نو عمر بھائی اور والد کے ساتھ اغواء کر کے لاپتہ کرنا ہے جبکہ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں کوئٹہ سے کیچ جاتے ہوئے دولت خان نامی ایک طالب علم کو گورکوپ سے اغواء کیا گیا ہے۔
جرمنی میں مظاہرے کے دوران بی آر پی جرمنی چیپٹر کے صدر جواد بلوچ نے کہا ہے بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ بلوچ قوم ستر سالوں سے پاکستانی مسلح افواج کے جبر کا شکار ہیں اور غیر قانونی اقدامات کے تحت پاکستانی افواج نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں مزید تیزی لائی ہے جہاں اب تک ہزاروں نوجوانوں کو پابند سلال رکھا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بلوچ ریپبلکن پارٹی ہر فورم پر آواز بلند کریگی۔
شیر محمد بگٹی نے مزید کہا ہے لندن میں برطانوی وزیر اعظیم کے دفتر کے سامنے بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کا مقصد بھی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ہے جبکہ بی آر پی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے دنیا میں ہر فورم پر آواز اٹھائے گی جبکہ لندن مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی آر پی کے مرکزی رہنما منصور بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال سنگین تر ہوتی جارہی ہے اور ہماری ماں بہنیں کوئٹہ پریس کلب میں اس سخت سردی کے موسم میں سڑکوں پر دربدر ہیں جن کے بچے کئی سالوں سے لاپتہ ہیں اور خاندان کو کوئی معلوم نہیں ہے کہ ان کے پیاروں کو کس جرم کے تحت اٹھایا گیا ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی قانون لاگوں نہیں ہوتا بلکہ وہاں پر جنگل کا قانون ہے ریاستی ادارے جب چاہے کسی بھی بے گناہ انسان کو اٹھا کر لاپتہ کردیتے ہیں جہاں کبھی کسی سے تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور پھر اس کی لاش پھنک دی جاتی ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو لاپتہ کردیا گیا ہےجن کے لواحقین ذہنی ایت کا شکار ہیں اور روز مرنے کے مترادف کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بیان میں انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے سنگین مسلئے پر مداخلت کرتے ہوئے عملی اقدامات کریں تاکہ جبری طور پر گمشدہ بلوچ اسیران واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔