ایک عہد ساز کردار،شہید جنرل اسلم بلوچ – ڈاکٹر جلال بلوچ

733

ایک عہد ساز کردارشہید جنرل اسلم بلوچ

تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عمومی زندگی میں جب ہم افسانوی داستانوں میں موجود کرداروں کو پڑھتے ہیں، سماجی اور خاندانی محفلوں میں ان کے بارے میں سنتے یا ان کی زندگی پہ بنائی گئی فلموں کو آنکھوں میں اتارتے ہیں تو بعض اوقات ان کے عظیم کارناموں پہ یقین کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا کوئی انسان عظمت کی اتنی بلند ی پر کیسے پہنچ سکتا ہے؟ لیکن بے یقینی کی اس کیفیت کے دوران بھی لاشعور کے کسی حصے میں یقین اپنا بسیرا کرلیتا ہے۔لاشعور میں یقین کی یہ بات اس لیئے کررہا ہوں کیونکہ ان عہد ساز شخصیات کے بارے میں مزیدسوچنااور مزید جاننا اس بات کی نشانددہی کرتا ہے کہ اس بے یقینی میں بھی یقین کی کرن موجود ہوتی ہے۔البتہ اشرف المخلوقات میں سے بہت سارے ایسے عناصر بھی ملیں گے جو فطرت کے عطاء کردہ صلاحیتیوں کے مالک انسانوں کے کارناموں سے انحراف کو ہی اپنے انا کی تسکین کا ذریعہ گردانتے ہیں اگرچہ وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ ایسے کارنامے سرانجام دینا بھی مخلوقِ خدا کا کام ہے۔

عمومی زندگی میں بے یقینی اور پھر سے یقینی صورت اورانا پرستانہ انحراف کی صورت الغرض ہر سوچ کے حامل افراد کی بہتا ت ہوتی ہے ، لیکن عملی زندگی میں جہاں کوئی فرد بذات خود کسی عمل کا حصہ ہو اور ایسے شخصیات کی زیارت بھی نصیب ہو تو اس کی سوچ یکسر مختلف صورت اختیار کرلیتی ہے، جہاں وہ عظیم کردار کے ان مالکوں کے عمل پہ نہ صرف کامل یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کی سوچ اور نظریے کی پیروی کو کامیابی کی ضمانت سمجھنے لگتے ہیں، ہاں البتہ ایسے افراد جسمانی طور پہ ہم میں موجود ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ عہد ساز شخصیات جب اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے ہمسفروں کو ایسی راہ فراہم کرتے ہیں جن پہ چل کر ہی مقصد کا حصول ممکن ہوجاتا ہے، ان کرداروں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انہیں یہ کامل یقین ہوتا ہے کہ کارواں میرے جانے سے رک نہیں سکتا بلکہ اس میں مزید شدت پیدا ہوگی۔ اس حوالے سے روم کا سپارٹکس ہو، سکاٹ لینڈ کا ولیم ویلس ، لیبیا کا عمر مختار ہو کسی نے بھی اپنے جیتے جی کارواں کو منزل تک پہنچتے نہیں دیکھا۔ ہاں البتہ ان شخصیات کو تاریخ عہد ساز شخصیات قرار دیتی ہے کیونکہ ان کے آدرشوں ، ان کی دی ہوئی فکر اور سوچ نے ہی کسی گروہ اور قوم کے لیے منزل پہ کامیابی سے پہنچنے کی راہ ہموار کی تھی۔ یعنی جنہوں نے منزل دیکھ لی، جنہوں نے مقصد کو پالیا، ان کی منزل پہ پہنچنے سے لیکر مقصد میں کامیابی تک سب کا دارومدار اپنے دور کے عہد ساز شخصیات کے کردار، عمل، فکر اور نظریے میں پنہاں ہے نہ کہ جسمِ خاکی میں۔

بلوچ قوم کی تاریخ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ماضی ہمیں ایسے عظیم شخصیات سے روشناس کراتا ہے جو اپنے کردار اور عمل کی بدولت ایسا مقام اور مرتبہ حاصل کیئے ہوئے ہیں جن کی عظمت بیان کرنا مجھ جیسے ناتواں انسان کے بس کی بات نہیں۔ ایسے کردار کبھی بابا میر حمزہ آذرک کی شکل میں جو آج کتابوں کی زینت ہے تو کبھی نورا مینگل، شہید غلام قادر مسوری اورشہید میر مہراب خان جبکہ پاکستانی استعمار کے خلاف قومی آزادی کا علم بلند کرنے والے عہد ساز شخصیات میں شہید سفر خان،شہید بابو نوروز، شہید مجید، شہید سدو مری، شہید غلام محمد ، شہید نواب اکبر خان ، شہید بالاچ، نواب خیر بخش مری، شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور ایسے عظیم انسان کبھی علی دوست کی صورت میں بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ تسلسل آج تک جاری ہے جہاں اسی سال شہید ریحان جان سے لیکر شہید رازق جان، شہید وسیم جان اور شہید ازل جان نے ایسے کارنامے سرانجام دیئے جن پہ انسانی عقل حیران و ششدر رہتی ہے۔

ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ شہید ریحان جان نے مورخ بن کے نہ صرف تاریخِ بلوچ بلکہ لمہ یاسمین اور اپنے والد محترم شہید استاد اسلم بلوچ کے کردار کو تاریخِ عالم میں بھی ایک سنہرا باب بنادیا، جواس واقعہ کی انفرادیت کو ثابت کرتی ہے۔ جہاں عظیم ماں اپنے جوانسال بیٹے کو مسکراتے ہوئے رخصت کرتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیٹھے کی لاش تک نہیں آئے گی اور عظیم باپ کو بیٹے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں، اسی لیے بلوچ شاعر مرید جان کہتا ہے کہ
گمان آن مستی ، بیان آن پیشن
شہید ریحان جان نے تو تاریخ رقم کردی لیکن کون جانتا تھا کہ شہید ریحان جان کی شہادت کے بعد وہ عظیم ہستی جنہوں نے بلوچ جنگ آزادی کو ایسی قوت عطاء کی جس سے دنیا بھی ششدر رہ گئی۔ ۔۔آہ ۔۔۔شہید استاداسلم جان ۔۔۔اے عظیم شہید آپ کی عظمت پہ لکھاری لکھنے لگ جائیں تو کتابوں کے لیے شاید لائبریاں بھی کم پڑ جائیں۔ اپنی کم مائیگی بیان کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ میں تیرے کردار کی عظمت کو بیان کرنے سے کوسوں دور ہوں ۔۔۔ پھر بھی قلم کو جنبش دینے کی جسارت کرونگا ، کوشش یہی ہوگی کہ الفاظ کی لڑی ٹوٹنے نہ پائے۔

بلوچ جہد آزادی کی مسلح جدوجہد کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو تاریخ کے اس حصے میں(مسلح محاز) میں آپ کا مقام سب سے بلند ہے، جہاں آپ نہ صرف دو عشروں تک تسلسل کے ساتھ دشمن کے خلاف برسرپیکار رہے بلکہ اپنی دوراندیشی ، علم اور تدبر کی بدولت جہد آزادی میں مسلح جنگ کو نئی جہتیں فراہم کیں جن کی بلوچ قومی تاریخ میں مثال ملنا ممکن نہیں۔

استاد اسلم بلوچ جنہوں نے سپیشل ہائی سکول کوئٹہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، یہ وہ دور تھا جہاں طلباء سیاست میں سکولوں میں بھی یونٹ سازی کا عمل اپنے عروج پہ تھی۔ جن دنوں استاد اسلم بلوچ سیکنڈری سکول کا طالب علم تھا انہی دنوں آپ شہید کا یارِ غار شریف بلوچ (مامو) سکول میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کا یونٹ سیکرٹری تھا۔ بنیادی سیاست کے اس مرکز میں دوستی کا رشتہ قائم ہونے کے بعد آخر وقت تک یہ رشتہ برقرار رہا۔ اس سے اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ استاد اسلم بلوچ کی تربیت بلوچ طلباء تنظیم (BSO) کے پلیٹ فارم سے ہی ہوئی جہاں ایک انٹرویو میں آپ نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ آپ کی تربیت میں آپ کے بڑے بھائی کا بڑا اہم کردار رہا ہے جو بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) سے منسلک تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ آپ کے ذہن پہ ادارتی سیاست کے اثرات ہی تھے، جہاں آپ بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کوآخر کار ادارتی شکل دینے میں کامیاب ہوئے۔

بلوچ جہد آزادی سے عملی طور پہ کب منسلک ہوئے، اس کا آسان سا جواب ہمیں آپ کی سیاسی زندگی کے بارے میں جاننے سے ملتی ہے۔ البتہ آپ کی قومی آزادی کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں بلوچوں کی افغانستان سے واپسی نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔

1992ء میں جب افغانستان میں جلاطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ واپس مقبوضہ بلوچستان آگئے تو کچھ عرصے بعد نواب خیربخش مری نے حق توار کے نام سے بلوچ قوم کی تربیت کے لیے سلسلہ وار پروگرام شروع کیا۔ آپ شہید استاد اسلم بلوچ جو کہ ذہنی طور پہ بلوچ قومی آزادی کے لیے مکمل تیار تھے اسی لیے آپ بھی حق توار کا حصہ بن گئے اور یہی آپ کے خوابوں کی تعبیر تھی، جس تک پہنچنے کے لیے نہ جانے آپ کب سے انتظار کررہے تھے۔ آپ کا حق توار کا حصہ بننے کا دورانیہ غالباً 1993 ء1994ء کا زمانہ تھا یعنی کہ پچیس سال تک آپ مسلسل بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سے منسلک رہے اور اس عرصے میں آپ کے کارنامے نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا کے دیگر اقوام تک پہنچ گئے۔

آپ کی کامیاب جنگی حکمت عملی نے جہاں ایک جانب آپ کو بلوچ جہدِ آزادی میں منفرد مقام عطاء کیا، جس کے چرچے بلوچستان سے باہر بھی ہونے لگے۔ وہیں بلوچ جہد آزدی سے منسلک سربازوں کی اکثریت آپ کو رول ماڈل تصور کرتے ہیں اور کرتے رہینگے یہ یقیناً آپ کی عظمت کی دلیل ہے جہاں اس قوم کے فرزند آپ کی طرح بننا چاہتے ہیں۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچ قوم مردہ پرست یا بالائی طبقہ کا متوالا ہے، ممکن ہے کہ مردہ پرستی اور اشرافیہ کو اہمیت دینے کا یہ رجحان ماضی میں رہاہو یا آج بھی اس کے بقایاجات موجوود ہوں لیکن آج قوم کے معماروں کی اکثریت کردار دیکھ کر اس کی ہمنوائی کا انتخاب کرتی ہے، البتہ کسی بھی قوم کے لیے اس کے شہداء کی اہمیت اور قوم کے دلوں میں ان کی محبت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ استاد اسلم بلوچ کے کردار کو اگر دیکھا جائے تو انہوں نے گذشتہ دو عشروں میں ایسے کارنامے سرانجام دیئے جن کی وجہ سے لاکھوں بلوچ شہید کے شیدائی بن گئے جس کا نظارہ ہم آج تک دیکھ رہے ہیں۔

عظیم اور عہد ساز شخصیات کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے، جب اس کے ہوتے ہوئے لوگ اس کے کردار کو بیان کرتے پھریں۔ بلوچ قومی تاریخ میں ایسے کرداروں کی کمی نہیں لیکن استاد چونکہ بعض اوقات اپنے عمل سے دوسرے کرداروں میں منفرد نظر آتاہے، اسی لیے آپ کا مرتبہ آپ کو دوسروں سے الگ مقام بخشتا ہے۔ ایسے مناظر راقم نے خود دیکھیں ہیں، جب لوگ آپ کی طرح بننے کی جستجو میں سرگرداں پھرتے تھے۔ جب ہر سُو لوگوں کو آپ کے کارناموں کے گن گاتا دیکھ لیا تو یہ یقین پختہ ہوگیا کہ استاد ایسی شخصیت کا مالک ہے جو بلوچ قومی تاریخ کو عظمت بخشے گی جہاں وہ ایسا مقام حاصل کریگا جو لاکھوں انسانوں میں سے کسی ایک کو نصیب ہوتا ہے۔

شہید استا اسلم بلوچ جو بلوچوں کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، انہیں اس روایتی سماج میں جو فرسودہ قبائلی اور نیم قبائلی خول میں جکڑا ہوا ہے، یہ بلند مقام کیسے حاصل ہوا۔ اس حوالے سے اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایسے افراد کی ایک لمبی قطار نظر آجاتی ہے جواپنے انقلابی فیصلوں کی بدولت تاریخ میں انمٹ نقش چھوڑیں ہیں۔ اس لیے اس فطری حقیقت سے آج کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بعض اوقات زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں جہاں منطقی فیصلے کسی بھی انسان کو صدیوں کی عمر عطاء کرنے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔ شہید استاد اسلم بلوچ کی اگر گذشتہ دو عشروں کی جدوجہد کو دیکھیں تو وہاں ان کی کامیاب عسکری حکمت عملیوں سے کوئی کافر ہی انکار کرسکتا ہے۔
لیکن گذشتہ ایک سال میں آپ نے بلوچ قوم کی جہدِ آزادی کو جو مرتبہ عطاء کیا اس نے بلوچ تاریخ میں آپ کو ایک مدبر، ایک عہد ساز رہنماء اور ایک عظیم ہستی کا کردار ادا کرتے دیکھا۔ جہاں آپ نے نہ صرف قومی یکجہتی میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو پہلی بار ادارتی سانچے میں ڈھالا، جو بلوچ جنگ آزادی کی تاریخ میں عظیم کارنامہ ہے۔ ایک ایسا کارنامہ جس نے جہد مسلسل کی راہ ہموار کی۔ آپ کے اس کارنامے کی وجہ سے آج بلوچ قوم آنکھوں میں آزادی کی امیدِ کامل لیئے دشمن کے خلاف میدان کارزار میں ایسے کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، جن کی بلوچ قومی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، جو اس بات کی جانب دلیل کرتی ہے عظمت کی بلندیوں کو چھونے کے لیے سماجی حیثیت ضروری نہیں بلکہ اس کے لیے خود کا کردار ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ آج استاد اسلم بلوچ بھی اپنے کردار کی وجہ سے وہ مرتبہ حاصل کرچکا ہے جو اکلیس کو یونان، ہوچی من کو ویتنام، سبھاش چند ربوس کو ہندوستان اور کم ال سنگ کو کوریا میں حاصل ہے۔ جن کے کارناموں پہ نہ صرف ان کی قوم بلکہ دنیا بھی نازاں ہے۔

آپ کا قومی یکجہتی کی راہ ہموار کرنے اور تنظیم کو ادارتی سانچے میں ڈھالنے کے اس مدبرانہ فیصلے سے آپ کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کی نشاندہی ہوتی ہے ، جہاں آپ کو یہ ادراک ہوچکا تھا کہ جب تک قومی یکجہتی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو پار نہیں کیا جاتا اور تنظیموں میں جدت پیدا نہیں کی جاتی، اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں کیونکہ اگر قومی یکجہتی کا مظاہرہ نہیں ہوگا اور ادارے نہیں ہونگے تو ایسے میں جدوجہد کا تسلسل برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیئے بلوچ قوم کا ماضی سب سے بڑی مثال ہے، جہاں غیر ادارتی جدوجہد اپنے اہداف کے حصول میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہے۔اسی لیئے آپ نے راہ میں حائل رکاوٹوں کی پرواہ کیے بغیر اداروں کے قیام، قومی یکجہتی کو عملی شکل میں دنیا کے سامنے لایا اور ساتھ میں آپسی چپقلش کا خاتمہ کردیا، جس نے بلوچ قومی تحریک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔

آپ کے ان کارناموں نے ایک جانب آپ کو بلوچ قوم میں عظیم مرتبہ عطاء کیا، تو دوسری جانب ریاست نے آپ کو اپنی راہ میں حائل بڑی رکاوٹوں میں سے ایک سمجھا ، جبکہ حالیہ کاروائیوں جن میں شہید ریحان جان کا کارنامہ اور کراچی میں موجود چینی سامراج کے کاؤنسلیٹ پہ کامیاب فدائی کاروائیوں کی وجہ سے آپ قابض ریاست، چائنا اور سعودی عرب جیسے طاقتوں کے نشانے پہ بھی تھے ۔

قابض ریاست اور اس کے حواری بالآخر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرتے ہیں جہاں25 دسمبر کے دن آپ اپنے دیگر پانچ ساتھیوں شہید اختر جان، شہید کریم جان، شہید سرداروجان، شہید فرید جان اور شہید صادق جان کے ساتھ جسمانی طور پہ ہم سے جدا ہوجاتے ہیں۔ دشمن شاید یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوگیا لیکن اس فطری طور پہ امر سے انکار ممکن نہیں کہ عہد ساز ہستیاں ابد تک زندہ رہتے ہیں اپنے نظریے، سوچ ، فکر اور کردار کی بدولت اور یہی نظریہ، سوچ اور فکر قوم کو منزل تک لے جاتی ہے جس کی گواہی دینے کے لیے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

عہد ساز شخصیات ہر دور کا حصہ رہے ہیں جن کے جانے سے بعض اقوام آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر، دل میں یاس و مایوسی لیے پھرتے رہے ہیں، جب کہ کامیاب اقوام ان کے آدرشوں سے خود کو مسلح کرتے ہوئے کامیابی کے سفر طے کیئے ہیں۔ ایسے عظیم کرداروں کے کارناموں سے تاریخ رقم ہوتی رہی اور آنے والے دنوں میں بھی ایسے عہد ساز شخصیات کا جنم ہوگا اور تاریخ کی کتابیں ان کرداروں کی مہک خود میں سماء کر خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ انہی کے کرم سے تاریخ کے مضمون کی رونقیں بحال رہتی ہیں وہ چاہے کسی بھی سماج سے تعلق رکھتے ہوں۔البتہ کامیابی ان اقوام کا مقدر بنتی ہیں جو انہی کی راہوں میں زندگی کی تلاش میں محو سفر رہتے ہیں۔

دیبلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔