پاکستان نے امریکہ کی جانب مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے مرتکب ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے سیاسی بنیادوں پر کیا گیا فیصلہ قرار دیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی ملک کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے فیصلوں سے ’واضح امتیاز ظاہر ہونے کے علاوہ اس ناجائز عمل میں شامل خودساختہ منصفین کی شفافیت اور قابلیت پر بھی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھتے ہیں۔‘
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان ایک کثیرالمذہبی ملک اور کثرت پسندانہ معاشرہ ہے جہاں مختلف عقائد اور فرقوں کے حامل لوگ رہتے ہیں۔ ملک کی کل آبادی کا چار فیصد حصہ مسیحی، ہندو، بودھ اور سکھ عقائد سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
وزارت خارجہ کے مطابق پاکستانی حکومتوں نے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ملک کے قانون اور آئین کے وضع کردہ حقوق کے مطابق تحفظ فراہم کرنے کو فوقیت دی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے اقلتیوں کی عبادت گاہوں اور املاک کے تحفظ کے لیے کئی اہم فیصلے دیے ہیں
منگل کو امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق امریکہ نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو ’خصوصاً تشویش والے ممالک‘ میں شامل کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت کو پاکستان میں مذہبی آزادی پر موجود قدغنوں کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا ہو گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ انھوں نے یہ فیصلہ 28 نومبر کو کیا۔
ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ برما، چین، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔
بیان کے مطابق یہ وہ تمام ممالک ہیں جہاں مذہبی آزادی کے بین الاقوامی قانون 1998 کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں یا جہاں ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے منظم طریقے سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی جاتی ہیں۔