استاد اسلم کے جانے کے بعد کوئی یہ نہ سمجھے کہ جنگ ختم ہوگی – یاسمین اسلم بلوچ

1031

میں قوم کے نوجوانوں سے یہی گذارش کرتی ہوں کہ استاد کی شہادت کے بعد ہمت نہ ہاریں بلکہ نئے جوش و جذبے کے ساتھ قومی جہد کو وسعت دیں، جس طرح استاد مایوس نہیں ہوا اسی طرح آپ بھی مایوس نہ ہوں، میں اپنے قوم کے ساتھ کھڑی ہوں۔ اہلیہ اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک رپورٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے رہنماء استاد اسلم بلوچ کی اہلیہ بی بی یاسمین بلوچ نے استاد اسلم بلوچ اور دیگر دوستوں کی شہادت کے بعد بلوچ قوم کے نام اپنے ایک   ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ مجھے استاداسلم بلوچ کے شہادت پر فخر ہے، انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی قوم کے لیئے دیااور استاد اسلم اپنے زندگی میں تمام الزامات اور مشکلات سے گذر کر ثابت قدم رہے کیونکہ ان کے پاس جذبہ تھا کہ وہ وطن کے لیے کام آئے اور اپنے قوم کو غلامی سے آزاد کرے، اس لیے وہ کسی قسم کی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹے۔

یاسمیں بلوچ نے کہا کہ میں قوم کے نوجوانوں سے یہی گذارش کرتی ہوں کہ استاد کی شہادت کے بعد ہمت نہ ہاریں بلکہ نئے جوش و جذبے کے ساتھ قومی جہد کو وسعت دیں، جس طرح استاد مایوس نہیں ہوا اسی طرح آپ بھی مایوس نہ ہوں، میں اپنے قوم کے ساتھ کھڑی ہوں۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچ قوم اگر استاد کے فکر اور سوچ کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو وہ ان کے مقصد کو آگے بڑھائیں ،استاد کا فکر اور سوچ یہی تھا اور ان کی خواہش تھی کہ میرے قوم کے نوجوان آگے بڑھیں اور بلوچ قوم کے بہنوں کے آنسوؤں اور شہداء کے خون کو ضائع ہونے نہیں دیں۔

یاسمین بلوچ نے مزید کہا کہ استاد کی شہادت کے بعد قوم بالخصوص نوجوان یہ نہ سوچیں کہ سب کچھ ختم ہوگیا بلکہ ایک استاد گیا ہے تو ہزاروں استاد موجود ہیں اور مزید پیدا ہونگے، جس طرح ریحان جان کے جانے کے بعد ہزاروں ریحان جان سامنے آئے۔ استاد کا خود کا اپنا قول اور خواہش تھا کہ بستر کے بجائے میں شہادت کی موت پاؤں۔

انہوں نے کہا کہ استاد کے بعد میں نے حوصلہ نہیں ہارااسی طرح میں قوم سے گذارش کرتی ہوں کہ وہ بھی نہیں ٹوٹیں بلکہ قوم ان کے سوچ اور فکر کو آگے لے جائے۔ جنگیں جذبوں سے آگے بڑھتی ہیں اور ایک شخص کے جانے سے جنگیں ختم نہیں ہوتیں۔ جس دن سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے ہر شخص کے بعد ایک شخص سامنے آیا ہے۔ جیسے کہ بالاچ کے بعد جنگ نہیں رکی اسی طرح اب بھی نہیں رکے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ استاد پر الزامات لگے لیکن وہ نہیں ٹوٹااور ثابت قدم رہا کیونکہ ان کا سوچ اور فکر قوم اور وطن کے لیے تھا۔ قوم اور وطن کی سوچ رکھنے والوں کی جنگ ایک شخص کے جانے سے نہیں رکتی ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ دکھ درد سب کے دلوں میں ہے استاد قوم کے لیے والد کی مانند تھا، ان کی سوچ و فکر ہر شخص کے پاس تھا کیونکہ اس نے خود کو قوم سے الگ نہیں کیا تھا۔

یاسمین اسلم بلوچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں مزید کہا کہ استاد نے اتنی قربانیاں دیں، ریحان جان کو صرف اپنے قوم اور وطن کے لیے قربان کیا۔
استاد کے جانے کے بعد کوئی یہ نہیں سوچے کہ یہ جنگ ختم ہوگئی، اگر استاد کے روح کو خوش رکھنا چاہتے ہو تو ان کے فکر اور سوچ کو آگے بڑھائیں، جنگ کو نہیں چھوڑیں بلکہ اس میں مزید شدت لائیں۔ استاد اور ان کے دوستوں کے خون کا بدلہ لینا ہے، ہمیں دشمن کو اس طرح معاف نہیں کرنا ہے، دشمن خوش ہے کہ ہمارا رہنماء شہید ہوگیا اور یہ جنگ کو آگے نہیں بڑھا سکتے ہیں، آج نوجوان دشمن کو دکھائیں کہ جس طرح استاد کی سوچ و فکر تھی اور جنگ کو آگے بڑھا رہا تھا اسی طرح نوجوان بھی جنگ کو آگے لیجائیں۔

انہوں نے پیغام دیتے ہوئے کہا میں جب تک زندہ ہوں بحیثیت قوم کی ماں سب کے ساتھ کھڑی ہوں۔