استاد اسلم کی شہادت اور ہماری ذمہ داریاں ۔ جیئند بلوچ

657

استاد اسلم کی شہادت اور ہماری ذمہ داریاں

جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

استاد اسلم کو شھید کہنا بہت تکلیف دہ ہے۔ وہ بلوچ قومی تحریک میں کئی پہلوؤں کو لے کر نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آزاد بلوچستان کی قومی تحریک میں اس شخص نے زندگی کے کم و بیش 25 بیش بہا سال گذارے ہیں ایسے میں ان کا قد کاٹھ اور مقام یقیناً بڑا ہوگا۔ یہ کہنے میں کوئی عجلت و جلد بازی نہیں کہ بالاچ مری کی شھادت کے بعد بی ایل اے جو قومی آزادی کی تحریک کا منظم جزو ہے پر بہت بڑا سانحہ ہے، اس لحاظ سے اس کے اثرات مجموعی طور پر قومی تحریک پر بھی پڑینگے اس لیئے بلوچ قیادت کو باہم مل کر اس سانحے کے مابعد اثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیئے اور نئی صف بندی و حکمت عملی کے ساتھ نئے سرے سے قدرے محتاط ہو کر آگے کا مشترکہ سفر طے کرنا چاہیئے۔

جیسا کہ ہم عرض کرچکے کہ استاد اسلم بلوچ اپنی حیثیت و مقام کے مطابق کئی پہلوؤں پر تحریک کو متاثر کرچکے، ان میں ایک نمایاں ترین پہلو بی ایل اے کو کئی عرصے کے بعد آزاد و خودمختار حیثیت میں سامنے لانا ہے۔ یقیناً بی ایل ا ے کو سرداری چنگل سے اس کی اصل شناخت کے کھٹن مرحلے میں لانے تک وہ اور ان کے ساتھیوں کو کئی طرح کے تکالیف و مشکلات حتیٰ کہ سیاسی فتووں کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر ان سب کے بیچ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے، ان کا یہ عمل ہر حوالے سے تاریخی اور سیاسی عمل تھا۔ میرے نزدیک استاد کو جہاں سیاسی جدوجہد کے کئی پرتوں میں یاد رکھا جائے گا، سب سے بڑھ کر ان کا یہ عمل ایک الگ تاریخ ہے کیونکہ ایک اجارہ دار سردار اور ان کے منظم نیٹ ورک کو توڑکر بی ایل اے جیسی اہم تنظیم کو سرداری شناخت سے سیاسی حیثیت میں لانا بہت زمہ داری اور اہم قومی عمل تھا، چند افراد کی اہم ترین قومی تنظیم پر گرفت اور کنٹرول اور اسے قومی آزادی کی تحریک سے غیر سیاسی گروہ بنانے کا مذموم عمل جس کے زریعے تحریک سے وابستہ دیگر عناصر کو بدنام کرکے اپنا فردی شناخت سب پر برقرار رکھنا اور مالی مفاد سمیٹنا تھا، اسے آزاد حیثیت میں لے آنا اور دیگر تنظیم و ہم خیال ساتھیوں سے جوڑنا اور پھر مشترکہ مقاصد کے لئے مشترکہ جدو جہد کا سیاسی عمل شروع کرنا استاد اسلم بلوچ کا کارہائے نمایاں شمار ہوگا۔

استاد اسلم بلوچ گوریلا جنگ میں ایک عظیم استاد ہونے کے علاوہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ قومی تحریک آزادی کو نئے ٹرینڈ اور جنگی حکمت سے آشنا کیا۔ پاکستان اور چین کی بلوچستان پر بالادستی کے خلاف بی ایل اے میں مجید بریگیڈ قائم کر کے فدائی جانثاروں کی تربیت، سب سے پہلے اپنے نوعمر لخت جگر کو فدائی محاذ پر بھیج کر قربانی اور ایثار کا اعلیٰ مقام اپنے پاس رکھنا یہ سب اعمال تحریک میں ان کی خلوص، اٹوٹ انگ، قربانی اور چاہت کے بے بہا ازکار ہیں جو ان کی حقانیت اور ثابت قدمی کے سب سے بڑے اظہار ہیں۔

استاد اسلم کی شھادت مجموعی طور پر بلوچ تحریک میں ان گراں بار ہستیوں کی ناگہانی شھادت جیسا ہے، جنہوں نے تحریک کو بڑے حدتک متاثر کیا ان ہستیوں میں شھید بالاچ مری، شھید اکبر خان بگٹی، شھید چیئرمین غلام محمد کے بعد استاد اسلم شامل ہیں۔ ہم ھزار خود کو تسلی دینے کے لیے استاد اسلم بلوچ کی شھادت کو ایک جنگی سانحہ کہہ کرنئے عزم کا اظہار کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچ تحریک پر استاد اسلم کی شھادت کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہونگے اگر ان حقائق کا بروقت اندازہ لگاکر قیادت نے مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ پیش بندی نہیں کی تو جس طرح کے تکلیف دہ نقصانات کا سامنا بالاچ مری،شھید غلام محمد اور اکبر خان بگٹی کی شھادت کے بعد بلوچ تحریک کو مجموعی صورت میں کرنا پڑا تھا اس سے بڑھ کر سنگین اور خطرناک مشکلات و حوادث کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پہلے ہمیں قریب لانے والا بردبار اور ایثار کا فکر استاد اسلم بلوچ جیسا مدبر دانشور دستیاب تھا، اب وہ بھی نہیں رہے جو کسی اناپرست اور موقع مزاج سردار کے ہتھکنڈوں سے تحریک کو بچا سکیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔