شبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے لواحقین کی جانب سے احتجاجی ریلی و مظاہرہ کیا گیا۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جبری طور پر لاپتہ طالب علم شبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین کے جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق لاپتہ شبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین کے جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور احتجاجی ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پریس کلب پے اختتام پزیر ہوئی جبکہ اس موقعے پر سیاسی، سماجی تنظیموں اور طالب علموں و دیگر افراد نے بڑی تعداد میں مظاہرے میں شرکت کر کے شبیر بلوچ کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں بلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر شبیر بلوچ کے بازیابی کے مطالبے سمیت بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ دیگر افراد کے حق میں تحریریں درج تھی جبکہ مظاہرین لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نعرے بھی لگاتے رہے۔
واضح رہے شبیر بلوچ کے لواحقین نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ میں ایک ہفتے تک علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھ اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، گذشتہ روز سیما بلوچ نے کوئٹہ کے مختلف شاہراہوں پر اپنے بھائی کے بازیابی کے حوالے سے پمفلٹ بھی بانٹے تھے اور آج کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے جب انہیں 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ بی ایس او آزاد اور ان کے لواحقین کا موقف ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
شیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ میرے بھائی کوفرنٹیئر کور نے اٹھایا ہے جس کی واضح گواہ ان کی اہلیہ زرینہ بلوچ اور 36 افراد ہیں لیکن ایف سی اور خفیہ ادارے کے افراد انہیں لاپتہ کرنے سے انکاری ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنا احتجاج کرنے کے باوجود نہ ان کا ایف آئی آر درج ہوا اور نہ اس کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ان کو منظر عام پر لایا جارہا ہے جس کے باعث ہم سارے گھر والے سخت پریشانی اور کرب کی حالت میں زندگی رہے ہیں۔