کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی احتجاج جاری، لاپتہ فتح محمد اور غلام فاروق کے لواحقین کی شرکت
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3406 دن مکمل ہوگئے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جوائنٹ سیکریٹری میر نذیر احمد بلوچ، سینٹرل کمیٹی کے ممبر میر غلام نبی مری، وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنماء جلیلہ حیدر اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے علاوہ مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ احتجاجی کیمپ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی آمد جاری رہی۔
بی این پی کے میر نذیر احمد بلوچ نے کہا کہ ستر سالوں میں ہزاروں بلوچ جس میں ڈاکٹر، سیاسی، ورکر، وکیل اساتذہ، طالب علم، مزدور، کسان، بزرگ، بچے اور زرینہ مری سمیت کئی بلوچ مرد و خواتین خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ کرکے غائب کردئے گئے ہیں ان میں سے ہزاروں بلوچوں کو شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے ویرانوں، سڑکوں اور ندی نالوں میں پھینک دئے گئے ہیں۔
میر غلام نبی نے کہا کہ کل دکی سے تین مری بلوچوں کو پاکسرتانی خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے لاپتہ کردیا، ریاست پاکستان اور اس کے ایجنسیوں کا بلوچ قوم سے نفرت کا اس سے بڑا ثبوت نہیں ملتی ہے۔ پاکستانی حکمران اور ریاستی ادارے ستر سالوں سے مسلسل بلوچ قوم کی شعوری توہین کررہے ہیں، بلوچ قوم کی نسل کشی مسلسل جاری ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ ہم نے لاپتہ بلوچ فرزندوں کے حوالے پاکستانی سپریم کورٹ سے لیکر ہر فورم پر آواز اٹھائی مگر کہیں سے بھی انصاف کی شنوائی نہیں ہوئی، اس عظیم انسانی المیے پر پاکستان کے نام نہاد آزاد میڈیا پاکستان کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز پاکستانی سول سوسائٹی، نام نہاد لبرل و ترقی پسند دانشوروں کے ساتھ ساتھ بلوچ پارلیمنٹ پرست پارٹیاں اور نام نہاد جمہوری ادارے برابر کے شریک ہیں۔ بلوچ قومی سوال پر بلوچ قوم جب پاکستانی اداروں کے علاوہ پاکستانی میڈیا، انسانی حقوق کے تنظیموں، سول سوسائٹی، عدلیہ اور دانشوروں کے رویہ پر غور کرتی ہے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ ان سے ہمدردی کی کوئی امید نہیں لہٰذا بلوچ مسئلے کے حل کے حوالے سے عالمی برادری سے یہ توقع رکھتی ہے اور اپیل کرتی ہے کہ بلوچ قومی سوال اب بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے اس لئے عالمی برادری بین الاقوامی قوانین کے حوصلوں کے تحت بلوچ قومی مسئلے کو حل کرکے بلوچ کو نجات دلائیں۔
دریں اثناء وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں مختلف علاقوں سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی آمد جاری رہی جس میں فتح محمد کھوسہ اور غلام فاروق کے لواحقین شامل ہے۔
کندکوٹ کے رہائشی ڈاکٹر بابو فتح محمد کھوسہ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ فتح محمد کو 1.2.2016 کو تنگوانی لاڑو سے اغوا کیا گیا تھا جو تا حال لاپتہ ہیں جبکہ غلام فاروق کے ضعیف العمر والدہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ غلام فاروق ولد عبدالرسول کو 2 جون 2015 کو حیدر آباد سے پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اغواء کیا ہے، بیٹے کی بازیابی کی امید لیکر پہنچ گئی۔