پاکستانی سیکورٹی ذرائع کے مطابق آج صبح بروز جمعہ انہوں نے کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر ایک بڑے حملے کو سخت مقابلے کے بعد روک دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مقابلے میں تین حملہ آور دو پولیس افسران سمیت سات افراد مارے گئے ہیں۔ اسی گلی میں پولیس چیک پوائینٹ کو گولیوں سے چھلنی اور ارد گرد کے گاڑیوں کو جلا ہوا دیکھا جاسکتا ہے لیکن حکام کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں کوئی چینی یا پاکستانی شہری ہلاک نہیں ہوا ہے۔
بلوچستان میں متحرک بلوچ آزادی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی سے وابسطہ ایک ٹوئیٹر اکاونٹ سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ” چینی قونصل خانے پر حملے کہ ہم ذمہ داری قبول کرتےہیں اور اس حملے میں ہمارے تین فدائین نے ” جام شہادت” نوش کی ہے۔” بعد ازاں مذکورہ ٹوئیٹر اکاونٹ کو ٹوئیٹر نے معطل کردیا۔
یہ حملہ پاکستان میں چینی مفادات ” دی بیلٹ اینڈ روڈ” کے خلاف ابتک کا مہلک ترین حملہ ہے۔
چین، پاکستان میں ابتک اس منصوبے میں تقریباً باسٹھ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے، جو زیادہ تر چین کے زیر کنٹرول گودادر پورٹ کو چین سے بلوچستان تک ملانے کیلئے اقتصادی راہداری کے قیام پر خرچ ہوا ہے۔
یہ اقتصادی راہداری بلوچستان سے ہوتے ہوئے بنایا جارہا ہے، جو معدنیاتی طور پر ایک امیر خطہ ہے اور ” دی بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے میں سب سے زیادہ تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا بنیادی مقصد چینی مصنوعات کے شپنگ میں خرچے اور فاصلے کو کم کرنا بتایا جاتا ہے۔ لیکن یہ دفاعی اعتبار سے چین کو ایک متبادل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر امریکہ اور اسکے ایشیائی اتحادی چین کا بحری ناکہ بندی کرتے ہیں۔
بلوچستان دو بڑے تحریکوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، جو اسے فوجی اسٹبلشمنٹ کیلئے پاکستان کا حساس ترین خطہ بناتے ہیں۔ بلوچ آزادی پسند فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں، دوسری طرف افغان طالبان کی قیادت بھی کوئٹہ شہر میں پناہ لیئے ہوئے ہے۔
مارچ کے مہینے میں بھارتی خبر رساں اداروں کو ایک ویڈیو پیغام بھیجتے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی کے اعلیٰ کمانڈر اسلم بلوچ نے چین اور پاکستان پر بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کا الزام لگایا تھا۔ انکا گروپ بلوچستان کی مکمل آزادی چاہتی ہے۔ قونصل خانے پر حملے کے بعد رئیوٹر نے مذکورہ گروپ کے ترجمان کا چین پر یہ الزام نقل کیا تھا کہ ” چین ہمارے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔”
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حملے کے بارے میں پاکستانی قومی اسمبلی میں بتایا کہ قونصل خانے میں گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے پہلے حملہ آور نے اپنا خود کش جیکٹ اڑادیا، دھماکے کے بعد باقی دو فائرنگ کرتے ہوئے ویزہ سیکشن سے اندر داخل ہوئے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کم از کم مزید ایک اور خود کش جیکٹ برآمد ہوا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ تین حملہ آوروں نے جمعے کو قونصل خانے پر حملہ کیا ہے ” تمام چینی حکام اور انکے اہلخانہ محفوظ ہیں” انہوں نے بیجنگ میں نیوز کانفرنس کرکے بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان کو کہا ہے چینی شہریوں کے حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے مزید اقدامات کریں۔
کراچی ڈیڑھ کروڑ آبادی کی پاکستان کی سب سے بڑا شہر ہے، جہاں یہ حملہ ہوا ، وہ ایک رہائشی علاقہ ہے اور ساحل سمندر کے قریب ہے۔ دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں میلوں دور تک سنائی دے رہیں تھیں۔ بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر جائے وقوعہ کی ویڈیو اور تصویریں بھی شائع کی ہیں جہاں سے دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی نے اگست کے مہینے میں ایک اور خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جب بلوچستان کے افغانستان و ایران کے سرحد سے متصل علاقے میں چینی انجنیئروں کے ایک بس پر خود کش حملہ کیا گیا تھا۔
چین کے صوبے سینکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کے خلاف چین پر پاکستان میں تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔
” بروقت کاروائی سے ایک بہت بڑی عالمی سازش کو ناکام بنادیا گیا” پاکستانی وفاقی وزیر فیصل واڈا نے میڈیا کو کراچی میں بتایا کہ ” اس حملے کا مقصد چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کو سبوتاژ کرنا تھا۔”