“مدت سے لاپتہ ہے خدا جانے کیا ہوا”
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
لاپتہ افراد کا مسئلہ کچھ لوگوں کیلئے اب بھی شاید ایک انوکھی بات ہو اور وہ اس بات سے بے خبر ہوں کہ لوگ اغواء کیئے جارہے ہیں، لاپتہ ہورہے ہیں، انہیں دن دہاڑے، ان کے گھروں، اسکولوں، کالجوں، دکانوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں سے کچھ نامعلوم افراد اغواء کرکے لے جاتے ہیں اور پھر انکی کوئی خبر نہیں آتی، اگر کچھ واپس آتی ہے تو وہ لاپتہ افراد کی یادیں، انکی مسخ شدہ لاشیں، انکی بے بسی اور لاچارگی کی صدائیں مگر وہ جسمانی طور پر لاپتہ یا گمشدہ ہی رہتے ہیں۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی انسان کو جبری طور پر لاپتہ کرنا سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار ہوتا ہے۔ مگر پاکستانی فورسز، خفیہ ادارے، اور انکے لوکل ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بلوچستان میں گذشتہ دو دہایوں سے لوگوں کو لاپتہ کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کرکے ان پر انسانیت سوز تشدد کرنے جیسے سنگین جرائم میں براہ راست ملوث ہونے کے باوجود بھی عالمی دنیا کو اندھیرے میں رکھنے یا انکی عدم دلچسپی کی وجہ سے بھرپور فائدہ اٹھاکر بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان سے قریباً چالیس ہزار سے زائد افراد اب تک لاپتہ ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں شہید کیئے جاچکے ہیں۔ اکثر و بیشتر لاپتہ افراد کے لواحقین اس ڈر سے اپنے پیاروں کی بازیابی کی خاطر احتجاج کرنے یا آواز اٹھانے سے اجتناب کرتے رہے ہیں کہ شاید آواز اس وجہ سے انہیں زیادہ نقصان پہنچایا جاسکتا ہے یا انکی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ مگر انتظار طویل ہو تو اور درد بردارشت کی حد تجاوز کرجائے تو انسان مجبوراً آواز اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی منظر آجکل بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، جہاں روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کی طول و عرض سے لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے گمشدہ پیاروں کی تصویریں لیے درد بھری کہانیاں سناتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ روزانہ ایک اشکبار ماں، بیوی، بہن یا بیٹی کی ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے، جن کے ایک ہی جیسے درد اور مجبوریاں، سبھی لوگ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے آئے ہیں کہ انکے پیاروں کو کیوں اور کس جرم میں گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ہے؟ انہوں نے کون سا جرم کیا ہے؟ اگر گناہ کیا ہے یا مجرم ہیں تو کیا کورٹ اور عدلیہ انہیں سزا دینے کا مجاز نہیں ہے یا اگر انہیں ریاستی ٹارچر سیلوں میں شہید کردیا گیا ہے، اس بارے میں آگاہی دی جائے۔
ان تین ہفتوں میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاسی اور سماجی تنظیموں نے اپنے طور پر اس احتجاج میں بھرپور شرکت کرکے لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کیا، مگر افسوسناک طور پر میڈیا کی آزادی کا راگ الاپنے والی میڈیا ہاوسز نے بلوچ مسئلے پر آنکھیں پھیرلی ہیں بالکل اسی طرح بلوچستان ہائی کورٹ نے ان پر امن مظاہرین کو گرفتار کرنے کی احکامات بھی جاری کردیئے تھے۔ یہ وہی میڈیا ہاوسز اور عدلیہ ہے، جو دہشتگردوں کو پروٹوکول اور میڈیا پر گھنٹوں کوریج فراہم کرتے نہیں تھکتے۔ مگر لاپتہ بلوچوں کے مسئلے پر انکی عدم دلچسپی واضح طور پر پنجاب اور بلوچ کے رشتے کی حقائق بیان کرتا نظرآتا ہے، جو ہمیشہ بلوچوں کو (بلوچی بھائی) کہتے نہیں تھکتے انہیں در اصل بلوچوں سے کسی بھی طرح سے کوئی لگاؤ نہیں وہ صرف بلوچ سرزمین اور اس میں دفن وسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور انہی وسائل پر مکمل قبضہ کرنے کی خاطر بلوچ نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں کو اغواء کرتے نہیں تھکتے۔ بلوچ قوم کی بیٹیوں کی امنگیں اور امیدیں اب اپنے قوم کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنے دانشوروں سے امید کررہی ہیں کہ وہ انکی آواز بنیں اور انکی خاطر لوگوں میں شعور پیدا کریں، بلوچ سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان سے یہ امید لگائی بیٹھی ہیں کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا تک ان کے مسائل کو ضرور پہنچانے میں کردار ادا کرینگے۔
ادیبوں اور شاعروں سے یہ امید کررہی ہیں کہ شاید وہ اپنی شاعری اور تحریروں میں لاپتہ افراد کے مسئلے اور انکے اہل خانہ کو درپیش مشکلات سے قوم میں آگاہی پیدا کرنے کا کردار ادا کرینگے۔ بلوچ صحافیوں سے امید کررہی ہیں کہ وہ اپنے کالموں میں انکے مسائل اجاگر کرینگے۔ استادوں سے یہ امید کررہے ہیں کہ وہ اپنے شاگردوں کو جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والے سنگین جرم بابت آگاہی پھیلا ئینگے اور انہیں شعوری اور عملی طور لاپتہ افراد کی مدد کا درس دینگے۔ وہ آنکھیں اشک بار تب تک رہینگی جب تک پوری قوم انکے آنسووں کا مداوا کرنے کی خاطر انکے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہوجاتی۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔