ماضی میں آزادی کی کامیاب جنگیں اور ہم ۔ خالد شریف

239

ماضی میں آزادی کی کامیاب جنگیں اور ہم

تحریر۔ خالد شریف

دی بلوچستان پوسٹ 

کاٸنات کی تمام تر احاطیں، طرزعمل، تضاد اور ضابطے ایک سلیقے سے ترتیب دی گٸی ہیں، جو انسان، حیوان اور کاٸنات کے تمام دوسرے فطری عوامل کے بنیاد سے جڑے ہوٸے ہیں۔ اگر ان میں نقطہ برابر غیر ضروری عوامل کا عمل دخل ہو، تضاد پیدا کیا جاٸے تو یہ فطری جزبات اور عام شعوری ذہانت کو خاصی حد تک نقصان اور منفی پہلو کی نذر کردیتے ہیں۔ اسی نظریٸے کی پابندی عام سے لیکر خواص تک ایک اہم اور ضروری عمل کا کردار ادا کرتی ہے، جو ایک انسان اور اسکے جزبات سے جڑے تمام تر احساسات کا اور سوچوں کیلٸے بے حد ضروری جز ہے، جو سلیقے سے انسانی زندگی پر بے حد اثر انداز ہوتی ہے، اسی سلیقے اور بنیادی ضرویات کا خاصہ کردار ہر ادارے یا تنظیم میں بے حد اہم کردار ثابت ہوتی ہے۔

اسی طرح گروہوں یا نجی ادارات میں ترتیب اور ڈھانچے کی بنیادی مضبوطی اشد ہے۔ ان تمام ضروریات کیلٸے ایک انسان یا گروہ میں مخلصی، بنیادی پختگی، ادارہ اور مضبوط ڈھانچے کا ہونا لازمی ہے۔ اگر کوٸی قوم بلوچ قوم کی طرح اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے تو اس کے بنیادی تمام منشوروں میں ادارے اور تنظیمی ڈھانچے کا خاصہ اہمیت ہوتا ہے۔ ورنہ اسکے بغیر کسی بھی ڈپلومیسی یا اسٹریٹجی کا کامیاب ہونا ممکن نہیں۔

اگر ماضی میں کچھ نظر دوڑا کے دیکھا جاٸے، تو ان اقدامات کا خاصہ خیال کیا گیا ہے۔ کسی بھی پارٹی یا تحریک کا اندازہ فقط اسکے سیاسی پروگرامز اور سیاسی لیڈروں کے بیانات سے نہیں ہو سکتا۔ سچی انقلابی پارٹیاں، لازمی طور پر اچھے پروگرامز پیش کرتی ہیں۔ لیکن بہت سے نقلی و مفاد پرست ٹولے کاغذ پر اچھے منشور لکھ کر دے سکتے ہیں۔ سچے اور مخلص انقلابی لیڈر لازمی طور پر ترقی پسند اور انقلابی تقریریں کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے بے ایمان اور لفظ فانی لوگ بھی انقلابی الفاظ استعمال کرکے عوام کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔ اسی طرح فقط مسلح جہد کرنے سے کوٸی تحریک انقلابی نہیں ہوجاتی ہے۔ اسی طرح فلسطین میں فلسطینیوں کے دشمن صہیونیوں(جارحیت اور توسیع پسند ، کٹر یہودی قوم پرست ) نے بھی برطانیہ کے مسلح کاروواٸیاں کی تھیں اور قبرص میں رجعت پرست جنرل گریواس کی تنظیم نےبھی چھاپہ مار لڑی تھی۔ چنانچہ یہ انقلابی ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ اس پارٹی نے عملی طور پر عوامی جمہوری سیاست کو لاگو کیا ہے کہ نہیں۔

کمانڈر سیتالکا ہوٹلا ایم پی ایل اے سیاسی و فوجی ڈھانچے کو 1970 میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ انگولا کی آزادی کی تحریک ایم پی ایل اے چونکہ ایک عوامی تحریک ہے اور اس نے ایک عوامی جنگ لڑی ہے۔ اسکا تنظیمی ڈھانچہ بھی انقلابی اصولوں پر بناٸی گٸی اور اس کا یہ ڈھانچہ انگولا کے سماج میں انقلابی تبدیلیاں برپا کرنے کی عملی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

سیتالکا ہوٹلا کہتا ہیکہ ہماری تحریک اور گروپوں کی منظم کی ہوٸی تا کہ اپنا کام آسانی سے اچھی طرح سے کر سکیں۔
وہ ایک ترتیب اور منظم تنظیم ڈھانچے کو اس طرح بیان کرتا ہے۔
1. ایک منظم اور کارآمد تنظیمی ادارے میں سب سے اوپر سیاسی اور فوجی کی رابطہ کمیٹی ہو، جس میں صدر سمیت اور دیگر چند ضروری ارکان ہوتے ہیں۔ یہ ارکان فوجی سطح پر تنظیمی نماٸندوں کے سیاسی اور قومی کانگریس سے منتخب ہوتے ہیں۔ رابطہ کمیٹی میں کوٸی بھی صدر ہی کیوں نہ ہو دوسرے کسی سے اوپر نہیں۔ اگر چہ صدر چیٸرمین کی جگہ غیر حاضر ہو تو انکی جگہ کوٸی اور رکن لے سکتا ہے۔ رابطہ کمیٹی کی کردہ تمام فیصلے مشترکہ فیصلے ہوتے ہیں۔
2. دوسری سطح پر سٹٸیرنگ کمیٹی ہے جسکی سال میں ایک یا دو نشستیں ہوتی ہیں جو قومی سطح پر تمام معاملوں کا فیصلہ کرتی ہیں۔ رابطہ کمیٹی کی طرف سے نامزد کردہ تمام علاقاٸی کماڈر اور سیاسی رہنما ٕ سٹٸیرنگ کمیٹی کے رکن ہیں۔ اس کمیٹی میں ارکان کی تعداد مقرر نہیں ہے۔

اسٹٸیرنگ کمیٹی کے رکن یعنی کمانڈر اور کمیسار ہمیشہ ملک کے اندر ہوتے ہیں اور اپنے اپنے علاقے کے کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ رابطہ کیٹی سے ہدایات لیکر حلقوں کی کمان تک پہنچاتے ہیں۔

ہر علاقے میں علاقاٸی کمانڈر ، سیاسی کمیسار کاروواٸیوں اور سراغ رسانی کے سربراہ اور مالی اور رسد پہنچانے والے معاملات کے سربراہ پر مشتمل ایک علاقاٸی کمان ہوتی ہے، وہ اپنے علاقے سے متعلق تمام معاملات پر فیصلے کرتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر کسی کا اپنا مخصوص کام ہوتا ہے۔ سینٸر لیڈر کا نمبر آتا ہے اس کام اور اپنے مخصوص کاموں کے علاوہ یہ دب ممبر علاقاٸی سطح پر فوجی کارواٸیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اور کارکنوں کو چھاپہ مار جنگ کے داٶ پیچ سکھاتے ہیں۔ یہ لوگ علاقاٸی بنیاد پر ان مساٸل کا حل نکالنے کی بھی زمہ دار ہیں جن کو حلقوں کے کمانڈر حل نہیں کر سکتے مثلاً یہ کہ دشمن جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جاٸے یا قتل کے وارداتوں کا فیصلہ کرنا۔

علاقاٸی سطح سے نیچے حلقہ کمان ہے جس میں حلقے کا کمانڈر، سیاسی تنظیم کار، سراغ رسانی اور کارواٸیوں کا سربراہ اور مالی اور رسد پہنچانے والے سربراہ شامل ہیں۔ حلقے کے لیڈروں کا انتخاب بھی رابطہ کمیٹی کرتی ہے۔ علاقاٸی کمانڈروں کی مدد سے حلقہ کمان اپنے حلقے کی عوام اور چھاپہ ماروں میں سیاسی تعلیم کے کام کی زمہ دار ہے وہ اپنے حلقے کی کی چھاپہ ماروں کی فوجی کارواٸیوں کی منصوبہ بندی اور قیادت کرتا ہے۔ وہ علاقاٸی کمانڈروں کے کارواٸیوں کیلٸے نہیں رکھنے چاہٸیں کیونکہ علاقاٸی کمانڈر اپنے علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے رہتے ہیں۔ حلقہ کمانڈروں کیلٸے یہ لازمی ہے کہ وہ لچکدار داٶپیچ کیساتھ حلقے کی سطح کے جھڑپوں اور دوسری کارواٸیوں کی منصوبہ بندی کریں اورانہیں پایہ تکمیل تک پہنچاٸیں جیسا کہ پرتگالی قیدی کیمپوں میں فوجی چوکیوں اور بارکوں کے اردگرد اور شہروں میں سیاسی کام کرنا۔

اپنے چھاپہ مار دستوں کو مخصوص کالم جو زیادہ اور کارآمد اور قابل حرکت ہوں۔ ان کالموں میں مخصوص شمار کی تعداد جو کالم کمانڈر کی کمان میں ہوں جو حلقہ کمان کی تابع ہو۔

ماضی میں تمام سلیقہ ِٕ جنگ اور سیاسی کارکردگی کی اہم سے اہم مشوروں کے علاوہ تنظیم کاری اور تنظیمی ڈھانچے کا خاصی خلاصہ بتایا گیا ہے تو ہم اتنی معلومات اور جانکاری کے باوجود بھی اتنی کوتاٸیاں کیوں کر رہے ہیں۔

مفادپرست لیڈران کی انا اور مفادپرستی کی وجہ سے تنظیم کی جوڑ میں توڑ پر دیمکوں کا ساتھ دینا کیوں اور کس لیٸے ہے؟ قومی مفاد کی بات کرنے والے پھر اپنی خود پرستی میں آکر کیوں پھنس جاتے ہیں؟
کیا شہداء وطن کی قربانیوں کےساتھ ہم نے زیادتی نہیں کی ہے؟
ہر کوٸی دوسرے کے گریبان پر داغ لگا کر مفاد اور انا کی دوام میں کیوں لگا ہے؟
کیا ہمیں اتنے وقت میں ان تقاضوں کو بہترین لاٸحہ عمل میں جانچ پڑتال کرکے کارعمل میں رکاوٹوں کا سامنا ہوا ہے؟ اگر ہاں تو پھر کس لٸے کیوں اور کیا وجوہات ہیں جو ہماری تنظیمات کی ہم آہنگی ابھی تک شکایات کا شکار ہے؟
ہم اگر ایک ڈپلومیٹ تنظیم کے بیرک تلے عملدرآمد نہیں کرسکتے، ایک تو آزادی اور دوسرا اسکے بعد کی مشکلات کا کیا حل ہوگا؟
اگر ہم اپنےتنظیم اور اسکے ارکان پر مخلصی اور قومی مفاد کا تبلیغ نہیں کرپا رہے، تو ہم اس جہدکو کیسے منزل مقصودتک پہنچا سکیں گے؟
اپنے بالاٸی زمہ داران سے لیکر ایک گوریلا سپاہی تک کی پختہ ذہنی فکریات مہیں ہم آہنگی نہیں تو پھر اس سلسلے میں ہم ایک ایجنڈے کا قیام کیوں لازم نہیں سمجھتے ؟
گلوبل گریٹ گیم میں اگر بلوچ رہنما یکجہتی اور متفقی سے اسرو رسوخ حاصل نہیں کر پاتے تو یہ ہمارے لٸے کسی بڑے نقصان سے کم نہیں؟

ہمیں اس کڑی سے بلکل غافل نہیں ہونا چاہٸے کہ ہماری جہد صرف ایک سامراج کی مخالف نہیں لڑی جارہی بلکہ سامراج کے ہمراہ ان تمام قوتوں سے ہے جو استعمار کا ساتھ دے رہی ہیں۔ جو لازوال طاقتوں کے مالک ہیں۔ اپنے قومی فتنہ انگیزی میں ہمارے لٸے نقصانات کے سوا کچھ نہیں بلکہ وقت آگیا ہے کہ ہم تمام مسلح تنظیم اپنے ایک متفق ڈپلومیسی پر ہمسفر ہوں بلکہ گروہ بندی میں تو دشمن کا کام آسان اور خود کا مشکل بنا رہے ہیں۔ آج اگر ہم شہدا کو الفاظ سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو عملاً یکجہتی اور متفق ہو کر کیوں نہیں کرتے ہیں؟

اس سلسلہ جہد کو اتنا لمبا سفر اور قوم کو زیادہ تر نقصانات کیوں ملی کیا ہم ان تمام مساٸل سے ابھی آگاہ ہوٸے ہیں، نادانی یا پھر جان بوجھ کر یہ سب کیا گیا اور کیا جارہا ہے؟
کیا ہم نے ہمیشہ قومی مفادات کا خیال رکھا ہے، جو قومی آزادی کی حق میں بہترین کردار ادا کرسکتی تھیں؟ ہم نے اتنا لمبا سفر طے کیا اور آخر کیوں ہمیں اتنی مایوسی اور مشکلات کا سامنا ہوا؟
کیا ہم اس سرزمین کے وارث ٕ، حق دار ہیں ہاں تو پھر اتنی بے حسی اور اتنی پامالی کیوں کرچکے اور کر رہے ہیں؟
کیا ہم نے ہمیشہ مخلصی سے قومی آزادی اور قومی داٸرے کی پابندی سے فکر کی ؟
کیا ہم نے آٸیڈیل تحریک کی قیام کیلٸے بنیادی اقدامات کی ہیں؟

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔