غموں کے مارے لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن اور بیوی – مسلم بلوچ

264

غموں کے مارے لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن اور بیوی

تحریر: مسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کیا آج دنیا میں انسانیت کا بس نام نہیں رہ چکا ہے؟ کیا دنیا میں لوگ دوسرے لوگوں کو کچلنے کیلئے ریس میں نہیں لگے ہوئے ہیں؟ کیا انسانیت صرف ان کیلئے ہے جو آج ایک آزادانہ حیثیت رکھتے ہیں یا ان کیلئے وہ ایک طاقتور ریاست یا کسی ملک کیلئے چاپلوسی کرتے ہیں؟ کیا وہ انسان نہیں ہیں، جو آج حق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں اور بعد میں گمنام ہوتے ہیں؟ ان کا نام بلند کرنے کیلئے دوسرے کیوں خاموشی اختیار کرتے ہیں؟

اگر بلوچستان میں دیکھا جائے تو انسانیت صرف نام تک رہ چکی ہے، انسانیت کیلئے کام کرنے والوں کا نام ہی نہیں ملتا، جو بھی آواز اٹھاتا ہے دوسرے دن اسکا نام اور تصویر گمشدہ افراد کے لسٹ میں شامل ہوتا ہے اور پھر اسکے بازیابی کیلئے آواز گونجتے ہیں، لیکن آواز اور گرتے آنسوؤں کو دیکھے کون؟ انکو سب نظرانداز کرتے ہیں حالانکہ یہ آوازیں بڑے شہروں میں شور مچاتے ہیں، وہاں میڈیا بھی خاموش ہے، بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کا پریس کلب شاید ایک دن بھی خالی نہیں رہتا شاید یہ بلوچستان ہے یہاں کوئی کچھ نہیں کہتا، یہی بھوک ہڑتالیں مظاہرے عیدوں کے دنوں میں کوئٹہ، کراچی اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہوتے ہیں۔

ایک طرف میڈیا کی سنسر شپ، دوسری جانب ریاست پاکستان کے خفیہ ایجنسیوں کے دھمکیوں نے لوگوں کی دلوں میں ایک ایسا خوف پیدا کرلیا ہے کہ جس نے انکو اندھا اور گونگا بنا کر رکھا ہے۔ بلوچ مائیں، بہنیں، سڑکوں پر روتے ہیں اور دوسرے لوگ انہیں تماشائی بن کر دیکھتے ہیں۔ کیا کوئی سوچتا بھی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ جو زندگی میں غموں کی جال میں پھنس گئے ہیں اور انہیں نکالنے کے بجائے سب تماشائی بن کر آتے ہیں اور ویڈیو بناکر جاتے ہیں، بلوچستان میں صرف ریاستی اداروں کی پالیسیاں چلتے ہیں اور بلوچستان میں خود کو چلانے کےلئے آمریت کے طریقوں کو استعمال کیا جارہاہے۔ یہاں کے لوگ اپنی آواز آٹھانے سے محروم ہیں، اگر دنیا کی انسانی اداروں کی توجہ کے بارے میں بات کریں تو وہ بالکل ناکام ہیں، یہاں جو بھی آواز، جو چیخ اور پکار ہیں، انہیں سننے سے لوگ تھک چکے ہیں، انہیں شہروں کے لوگ تک نظرانداز کرتے ہیں، سب بیزار ہیں، بس رسی اب غریب کے گردن تک پہنچ گئی ہے۔

سیما کے آنسو اور درد بھری آہیں، آنکھوں میں گہری یادیں، سب کچھ گواہ ہیں لیکن بلوچستان میں یہ اکیلی سیما نہیں ہے، یہاں ہزاروں کی تعداد میں آنکھیں آنسو بہا چکے ہیں، یہاں انسانی درد کی داستان کو کوئی بیان نہیں کرسکتا، ہر شخص رنج و غم میں ہے، کیا یہاں خوشی کی نئی کرنیں کبھی آئیں گی، ان کرب ناک حالات کا جانا ممکن ہے؟ یہاں خوشی کون لانے کیلئے جاتا ہے، جو بھی جاتا ہے واپس نہیں آتا۔

کوئٹہ کے سرد ترین مہینے نومبر اور دسمبر میں سردی اپنی زور پہ ہوتی ہے اور ویسے تو برفیلا علاقہ ہے اور گمشدہ شبیر بلوچ کی بہن صبح سے لیکر شام تک کچھ تصاویر کے ساتھ بیٹھ کر روتی ہے اور رنج و غم کی المناکیاں ہر روز اس پر گذرتے ہیں اور شام کے وقت واپس گھر جاکر اکیلا پن اسکو آرام کرنے نہیں دیتی اور بیٹھ کر بھائی کی تصویر کو دیکھ کر گھر کی رونق اور روشنی ختم ہوکر، اندھیرے چاروں طرف منڈلاتی ہیں اور گھر ہر وقت سنسان ہوتا ہے، ایک نہیں پورے گھر والے رو رو کر زندگی ایسے گذارتے ہیں اور انکی چیخیں گھر میں زور سے گونجتے ہیں، بی ایس او آزاد کے سابقہ انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو پاکستانی اہلکاروں نے اٹھا کر عقوبت خانوں میں گمنام کردیا اور آج دو سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے کہ وہ ابھی تک لاپتہ ہیں انکی بازیابی کیلئے اسکی بہن اور بیوی جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ لاپتہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔