اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتیوگوٹریش نے صحافیوں کے عالمی دن کے موقع پرکہا ہے کہ دنیا بھر میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے صحافیوں کا قتل انتہائی قابل مذمت ہے اور اسے معمول بننے سے روکنے کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک عشرے میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے 1010 صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں سے 90 فیصد کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال اب تک 88 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ہزاروں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا،انہیں محصور رکھا گیا اور ہراساں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ صحافی خراج تحسین کے مستحق ہیں جو خطرات کے سائے میں سچ کو سامنے لانے میں کاوشیں کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں اپنی صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اب تک درجنوں بلوچ صحافی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں اغواء اور قتل ہوچکے ہیں ۔
اس کےعلاوہ پاکستان میں صحافت کو درپیش مشکلات کے حوالے سے صحافت کے بین الاقوامی ادارے، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے کہا ہے کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی نگرانی کاماحول دھیرے دھیرے مگر مؤثر انداز میں ’سیلف سینسرشپ‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اِس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان کے متعدد صحافیوں کے انٹرویو شامل کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں ’سی پی جے‘ کا کہنا ہے کہ ’’ان انٹرویوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافت شدید پابندیوں کی شکار ہے‘‘۔
تاہم، رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں پہلے کی نسبت اس سال صحافیوں کے قتل اور اُن پر تشدد کے واقعات میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں کیا جاتا تھا جو صحافیوں کیلئے انتہائی خطرنک سمجھے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں : دوہزارسترہ: دنیا بھر میں 9 خواتین سمیت 68 صحافی قتل
’سی پی جے‘ کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈنیٹر، سٹیون بٹلر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگرچہ صحافیوں کے قتل کے واقعات میں کمی حوصلہ افزا ہے، پاکستانی حکومت کو چاہئیے کہ وہ میڈیا پر ایسے دباؤ کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے جس کی وجہ سے میڈیا ’سیلف سینسرشپ‘ پر مجبور ہوا ہے۔
سی جے پی کے مطابق، فوج صحافیوں کو بعض علاقوں میں جانے سے روکتی ہے، اُنہیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بعض معاملات کی رپورٹنگ سے باز رکھنے کیلئے اُن کے خلاف تشدد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں گذ شتہ دہائی کے دوران 22 صحافیوں کا قتل ہوا اور ان میں سے نصف کے سلسلے میں فوج، خفیہ ادارے اور فوج سے تعلق رکھنے والے سیاسی گروپوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ ’سی پی جے‘ نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمہوریت کے اس ستون کو کمزور ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے کچھ سینئر صحافیوں نے ’سی پی جے‘ کے محققوں کو بتایا ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت کی صورت حال کم و بیش اتنی ہی خراب ہے جتنی وہ فوجی آمروں کے دور میں تھی۔
’سی پی جے‘ کا کہنا ہے کہ اُس نے فوج کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور کو ای میل کے ذریعے ایک تفصیلی درخواست بھیجی ہے۔ لیکن، اُنہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور ’سی پی جے‘ کے مشن کے دورہٴ پاکستان کے دوران اُس سے ملاقات کرنے پر بھی رضامند نہیں ہوئے۔
پاکستانی فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ کی طرف سے ’سی پی جے‘ کے الزامات کے بارے میں کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم، میجر جنرل آصف غفور نے اس سے پہلے ملک میں میڈیا کی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں : بلوچستان میں سب کچھ برائے فروخت نہیں ـــ امين الله فطرت
پاکستان میں گزشتہ ماہ وجود میں آنے والی نئی حکومت نے آزادی صحافت کا دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے واضح کیا ہے کہ اُن کی حکومت میڈیا پر کسی قسم کا سینسر لگانے کے حق میں نہیں ہے۔
اس کے علاوہ چند ماہ قبل پاکستان کیمشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صحافیوں کی جانب سے گذ شتہ چند مہینوں میں کام کے دوران رکاوٹ ڈالنے سے متعلق متعدد شکایت درج کرائی گئی۔
لاہور پریس کلب میں ایچ آر سی پی کے ارکان نے کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے اجراء کے موقعے پر کہا کہ پاکستان بھر میں آزادی اظہار پر قدغن کے واقعات میں اضافہ ہوا بلخصوص آزاد صحافت اس کا نشانہ بنا۔
اس کے علاوہ ڈان اخبار کے سیلز اور ڈسٹریبیوشن ایجنڈز نے ڈان انتظامیہ کو شکایت درج کرائی ہے کہ ڈسٹریبیوشن کے مراحل میں شدید رکاوٹ کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے والے جواب دہندہ نے خصوصی طورپر ریاستی اور خفیہ اداروں کی طرف تشویش کا اشارہ کیا ہے۔
اجلاس کے دوران یہ واضح کہا گیا کہ ایچ آر سی پی متعلقہ اداروں اور ایجنسیوں سے خدشات کا اظہار کریں گے جبکہ جواب دہندہ کی شناخت کسی بھی صورت میں ظاہر نہیں کی جائے گی۔
بلوچستان، پنجاب، سندھ میں ڈان کی ڈسٹریبیوٹرز سے انٹرویو کیے گئے جس میں انہوں نے تصدیق کی کہ آرمی کے کمرشل اور رہائشی علاقوں میں اخبار کی ترسیل بہت متاثر ہوئی جس کا اثر براہ راست کاوبار پرپڑا۔
رواں برس 12 مئی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کا انٹرویو شائع ہونے کے بعد سیلز ایجنٹ نے الزام عائد کیا کہ 20 سے زائد شہریوں اور ٹاؤنز میں ڈان کی ترسیل متاثر ہوئی جس میں سب سے زیادہ کنٹو نمنٹ بورڈ اورآرمی آفس اور اسکول کے مقامات شامل ہیں۔
ہاکرز کو ہراساں کیا گیا، انہیں جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی تاکہ ڈان کی ترسیل متاثر ہو۔
جس کے بعد اشتہارت ملنا بند ہو گئے یا انہیں رکوادیا گیا۔
اس حوالے سے ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2016 کے بعد سے آرمی کے زیراہتمام تمام کمرشل انٹرپرائزز بشمول ڈی ایچ اے کی جانب سے اشتہارات کی مکمل بندش چل رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پنجاب اور گلگت بلتستان میں کم از کم تین کیبل آپریٹرز کو خاص چینل بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر کیا گیا کہ فون پر ایک شخص نے خود کو انٹیلیجنس ایجنسی کا افسر ظاہر کرکے مطالبہ کیا کہ جیوٹی وی کی نشریات ’روک‘ دی جائے یا پھر چینل کی فہرست میں آخری نمبر پر ڈال دیا جائے تاکہ عوام کی چینل تک رسائی مشکل ہوجائے۔
جواب دہندہ نے اقرار کیا کہ انہیں اور ان کے کاروبار کا خوف تھا اس لیے مجبوراً ہدایات پر عمل کرنا پڑا۔
دوسری جانب ٹی وی انتظامیہ نے اس غیریقینی صورتحال پر اشتہارات کی مد میں ہونے والے نقصان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر جیو ٹی وی جیسے بڑے ادارے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو چھوٹے چینلز کے پاس انتہائی محدود راستے ہوتے ہیں۔
زبانی پریس ’ایڈوائز‘ بذریعہ فون ملتی یا پھر رپورٹرز کو پابند کیا جاتا ہے کہ ’فلاں‘ چیز شائع یا نشر نہیں ہونی چاہیے۔
انٹرویو میں کہا گیا کہ عمومی طور پر زبانی پریس ایڈوائز لاپتہ افراد، پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)، علیحدگی پسند بلوچ، ماما قدیر، پاناما اور نیب ریفرنس، سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی اور گرفتاری، عدالیہ کے بعض فیصلے اور عسکری اداروں پر سوالات اٹھانے پر ملتی ہیں۔
اس حوالے سے دو جواب دہندہ نے بتایا کہ انہیں خبر نشر کرنے سے قبل نواز شریف کے ساتھ ‘سابق وزیراعظم‘ کا لاحقہ لگانے کے بجائے ’کرمنل یا مجرم‘ استعمال کرنے کو کہا گیا۔
3 جواب دہندہ نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرنا بھی صورتحال کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔
پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کے جواب دہندہ کے مطابق پریس ایڈوائز عمومی طورپر سول بیوروکریٹس، ڈی جی پریس اینڈ انفارمیشن یا پھر برائے راست آئی ایس پی آر کی جانب سے موصول ہوتی ہیں۔
تقریباً 4 ٹی وی اور ریڈیو کے صحافیوں نے بتایا کہ ’سرگرم‘ صحافیوں سے بات چیت کرنے پر ریاست یا انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے چینل یا اخبار کے مالک تک رسائی حاصل کی گئی اور انہیں نیب اور ایف آئی اے یا اشتہارات بند کرنے کی دھمکی دی گئی۔
پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کے صحافیوں نے بتایا کہ ہدایات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سوشل میڈیا پر کردار کشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اگر صحافی کوئی خاتون ہو تو ایسے ریپ کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں دو مختلف واقعات کا ذکر ملتا ہے جس میں پرنٹ میڈیا سے جواب دہندہ نے بتایا کہ انہیں ریاستی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے طلب کرکے عالمی فنڈنگ اور علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنے پر سوالات کیے۔
گلگت بلتستان میں تقریباً 7 ایڈیٹرز اور رپورٹرز نے تصدیق کی کہ انہیں پریس ایڈوائز موصول ہوئی اور سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر دھکمیوں کی وجہ قوم پرستوں کو کوریج کرنے پر ملی جبکہ ریاستی اور حکومتی اداروں پر منفی رپورٹنگ کرنے پر بھی ہراساں کیا گیا۔
رپورٹ میں ایک سنگین نوعیت کا کیس بھی درج کیا گیا کہ جس میں ایک ایڈیٹر اور پبلشر کو ’احکامات‘ نہ ماننے پر رشوت اور جان سے مار دینے کی 5 مرتبہ دھمکیاں دی گئی اور انہیں پر الزام لگایا گیا کہ وہ بیروبی خفیہ ایجنسی کے پلے رول پر ہیں۔
تاہم ایک کیس میں متعلقہ ایڈیٹر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا گیا اور وہ ان دنوں جیل میں ہیں۔
ایچ آر سی پی نے وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت تمام ریاستی اداروں سے شکایت پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور ملک میں آزادی اظہار پر غیر قانونی رکاوٹ کے کلاف اقدامات اٹھائیں۔
ان کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ میڈیا اداروں کے بنیادی حقوق سمیت کسی بھی اخبار کی ڈسٹریبیوشن اور سیلز پر رکاوٹ کا سلسلہ روکا جائے۔
علاوہ ازیں پریس ایڈوائز کا سلسلہ بھی ختم کیا جائے۔
ایچ آر سی پی کے ارکنان نے کہا کہ صوبوں کی سطح پر مربوط اور فعال کمیشن تشکیل دیا جائے جو اطلاعات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکے۔