سی پیک، چین، پاکستان اور بلوچ – میار بلوچ

290

سی پیک، چین، پاکستان اور بلوچ

میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ:کالم

انسانی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں استحصالی قوتوں نے کسی بھی خطے پر اپنا قبضہ جمانے کیلئے وہاں موجود غیر سیاسی اور انسانی اقدار سے عاری لوگوں سے خفیہ معاہدے کرکے وہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنانے، انکی ملکیت، زمین، ساحل و وسائل پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ جس کی بہترین مثال برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔

جس نے ہندوستان میں موجود لالچی، سیاست اور جمہوریت سے بےخبر نوابوں سے معاہدہ کرکے وہاں کاروبار کے نام پر برطانوی قبضہ گیریت کے منصوبے کو آسانی سے دوام بخشا ۔ جس کی بھاری قیمت ہندوستانی عوام کو چکانا پڑی اور آج موجودہ ہندوستان جسے مختلف حصوں میں تقسیم کرکے برطانوی سامراج نے پاکستان جیسے غیر فطری ریاست کا قیام ہی اسی لیے یقینی بنایا تاکہ وہ اپنے سامراجیت اور قبضہ گیریت کے نشانات اور داغ ہمیشہ کیلئے خطے میں چھوڑ جائیں۔ ساتھ ہی اپنے تاریخی دشمن ہندوستان کی ترقی اور برتری کے ڈر سے ایک ڈمی ریاست اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر بنائی۔

پاکستان اپنے قیام سے لیکر اب تک گذشتہ ستر سالوں میں دنیا کے لیے حیران کن اور پریشان کن ریاست رہا ہے۔ برطانیہ سمیت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک جو پاکستان کو وقتاً فوقتاً اپنے مفادات کی خاطر ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرتے رہے ہیں۔ شاید اب وہ تمام ریاستیں بھی اپنی غلطی کو سمجھ چکے ہیں اور پاکستان کو اپنے اور دنیا کے امن کیلئے ایک بھر پور خطرہ سمجھنے لگیں ہیں۔ چونکہ پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے اور شروع دن سے ہی دوسروں کے رحم و کرم اور دہشتگردی کے زور پر چلتا رہا ہے تو اس کی خاطر مغربی دروازوں کا بند ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں اسی لیے پاکستانی مقتدرا نے ان سنگین حالات اور انکے نتائج کو بھانپتے ہی چین اور سعودی دروازوں کی طرف رخ کرلیا، اب چونکہ چین موجودہ دور کا ایسٹ انڈیا کمپنی بن چکا ہے اور وہ دیگر ممالک میں تجارت اور ترقیاتی پراجیکٹس کے نام پر قبضہ جما رہا ہے، جس کی حالیہ مثال سری لنکا اور چند افریقی ممالک میں کمپنیوں، ایئرپورٹوں اور دیگر سرکاری اداروں پر قرضہ واپس نہ کرنے کی مد میں قبضہ کرنا ہے۔

چین چونکہ پاکستانی فطرت سے واقفیت رکھتا ہے اور سے امر سے بخوبی آشنائی ہے کہ پاکستان میں قرضہ دینے کا مقصد ہی اپنا پیسہ چوروں پر خرچنا ہے، اس کے باوجود بھی پاکستان پر بلین ڈالر انویسٹ کرنے سے نہیں ہچکچا رہا اور ساتھ ہی پاکستان کی پشت پناہی کرنے والے سعودی عرب کو اپنا شریک جرم بنانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ پاکستان اگر کل کسی طرح سے چینی مفادات کی تحفظ میں ناکام رہا تو سعودی عرب پاکستان اور چین کے درمیان ایک کردار ادا سکتا ہے۔ اب چونکہ پاکستان پر چین اور سعودی عرب کافی پیسہ لگا چکے ہیں، وہ پیسہ کیوں کہاں اور کس لیے لگایا جارہا ہے یہ ایک اہم اور خطرناک سوال ہے۔ چین کی آنکھیں جہاں پر گھڑی ہیں وہ بلوچ کوسٹل علاقہ یعنی بلوچ سمندر ہے۔

بلوچ سمندر جو کسی بھی قانونی حوالے سے پاکستان کی ملکیت نہیں بلکہ بلوچ قومی ملکیت ہے اور پاکستان اِس سرزمین پر قابض کی حیثیت سے موجود ہے، در حقیقت حقیقی قابضوں کے دلال کے حیثیت سے موجود ہے۔ وہ حقیقی قابض جو کبھی برطانیہ کی شکل میں موجود تھا آج چین اور سعودی عرب کی شکل میں بلوچ ساحل و وسائل پر پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ مگر بلوچ قوم، بلوچ قومی آزادی تحریک سے منسلک سیاسی پارٹیاں اور مسلح جدوجہد کرنے والے حقیقی تنظیمیں چین، پاکستان اور سعودی قبضہ گیریت کیخلاف اعلان بغاوت کر چکی ہیں۔

سیاسی حوالے سے چین اور سعودی کو بارہا تنبیہہ کیا گیا ہے کہ وہ بلوچ سرزمین سے اپنے قدم دور رکھیں کیونکہ یہ سرزمین ایک مقبوضہ سرزمین اور متنازعہ علاقہ ہے جہاں پر ہم کسی بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت بلوچ قومی آزادی سے قبل نہیں دے سکتے۔ مگر طاقت کے نشے میں چور طاقتیں بلوچ قومی تحریک اور آواز کو سُننے اور سمجھنے کے بجائے اسے ترقی مخالف اور پاکستان اس آواز کو غداری کا لیبل لگا کر بلوچ عوام کے خلاف طاقت کا بھر پور مظاہرہ کرکے انہیں ان علاقوں سے بیدخل کرکے وہاں بیرونی سرمایہ کاروں کی خاطر جگہ بنانے کی ہرممکن کوشش میں مگن رہا ہے۔

جب استحصالی قوتوں چین اور سعودی کے دلال پاکستان نے طاقت کو ہی بلوچ قوم کے خلاف اپنا موثر ہتھیار جانا اور بلوچ نسل کشی کی ایک تاریخ رقم کرکے بلوچوں کو اغواء کرکے قتل کرنا شروع کیا، پھر انہیں انہی کے سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی خاطر گوادر کو چینی حکام کے حوالے کرنے جیسے انتہائی قدم اٹھائے تو بلوچ قومی مزاحمت کے روح رواں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے سربراہان اسلم بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے چینی کمپنی انکے انجینئرز اور انکے حفاظت پر مامور لوگوں پر حملہ کرنے، انہیں اپنے سرزمین سے نکال باہر کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد سے ابتک بلوچستان میں چینی انجینئرز سی پیک روٹ اور دیگر غیرملکی استحصالی منصوبوں پر کافی حملے کئے گئے ہیں۔

حال ہی میں بی ایل اے مجید بریگیڈ کی جانب سے اپنے حملوں میں شدت لانے کا اعلان اس وقت کیا گیا، جب بی ایل اے فدائین ریحان بلوچ نے دالبندین میں چینی انجینئرز پر فدائی حملہ کرکے چین، سعودی عرب، پاکستان اور انکے ہمراہ دیگر ممالک کو ایک واضح پیغام دیا کہ ہمارے سرزمین اور ہمارے وسائل سے دور رہیں بصورت دیگر یہاں موجود نوجوانوں کا سامنا آپکو ہمیشہ کرنا پڑےگا۔

اس حملے کے بعد بی ایل اے سربراہ اسلم بلوچ نے پھر سے چین کو تنبیہہ کیا کہ بلوچستان سے دور رہنا ہی چین کے مفاد میں ہے۔ مگر چین چونکہ بلوچ سائل کو بیرون ممالک سے مقابلہ بازی میں ایک عسکری طاقت کے طور پر استعمال کرنے کا خواہش مند ہے، شاید اسی لیئے وہ اس حملے اور بلوچ رہنماوں کے پیغام میں پوشیدہ حقائق اور سنگینی کو نظر انداز کرکے عام آبادیوں پر اپنا ظلم و جبر جاری رکھ کر سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے خواب میں مگن ہوگیا۔

دوسری طرف دھرتی کے سرباز فدائین اپنے ہدف کا تعین کرکے اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر کوششوں میں جُڑ گئے۔ اور پھر انہوں نے بھی بلکل ویسا ہی دھماکا کیا جیسا کہ بھگت سنگھ نے برطانوی سامراجی بہروں کو سنانے کیلئے کیا تھا۔ بھگت سنگھ اور ساتھی بھی بھی حملے سے پہلے ہی موت کیلئے تیار تھے۔ ٹھیک اسی طرح سرباز فدائین ازل، رازق اور رئیس بھی اپنی موت خود ہی لکھ کر چینی سفارت خانہ کراچی میں داخل ہوئے تھے۔ ان کا مقصد کسی بھی بے گناہ کو مارنا یا نقصان پہنچانا نہیں تھا انکا مقصد بلوچ سرزمین کیخلاف مشترکہ طور پر کام کرنے والی چین، سعودی اور پاکستان سمیت دنیا کو یہ پیغام تھا کہ ہم ایک زندہ اور باضمیر قوم کے نوجوان ہیں جنکی زندگی اور موت کا بس ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کے سرزمین کی دفاع اور سرزمین سے بیرونی قبضہ گیروں کی مکمل انخلاء۔ بلوچ قومی سرمچار آج بھی اسی عزم کے ساتھ محاذ پر موجود ہیں کہ پاکستان اپنے سامراجی اتحادیوں سمیت بلوچستان سے نکل جائے۔ اور بلوچستان کی آزاد اور خودمختار حیثیت تسلیم کرے۔