زندگی اور جلال
تحریر: زہرہ جہان
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی کمال ہے
زندگی مثال ہے
زندگی فدائی ہے
زندگی جلال ہے
زندگی! کیا سے کیا نہیں ہے. زندگی کمال ہے، جب یہ اپنے کمال دکھاتی ہیں تو ہر شہ دنگ رہ جاتی ہے، جس میں شعور و عقل ہو۔ زندگی بے مثال ہے، پھول کی مہک زندگی ہے تو کانٹوں کی سیج بھی زندگی ہے۔.
خوشی کے آنسو زندگی ہے، تو غم میں خشک ہوئے دیدہ بھی زندگی ہے۔.
چودہویں کی چاند زندگی ہے تو ماگم میں قید بھی زندگی ہے۔
سورج کی تپش زندگی ہے سورج کی جلالیت بھی زندگی ہے۔
زندگی خود زندگی ہے تو موت بھی جلا بخشنے والی زندگی ہے۔
غرض دنیا میں پائے جانے والی ہر شہ نے اپنے اندر ایک زندگی سموئی ہوئی ہے، جو ہمارے سمجھ، عقل و فہم سے بہت آگے اور بہت اونچا ہے۔
ہم اگر لگا سکتے تو صرف اور صرف اندازہ، باقی زندگی کو خود ہی پتہ ہے کہ زندگی کیا ہے. زندگی لازوال ہے، یہ لافانی ہے، اسکی کوئی موت نہیں اسکی کوئی حد نہیں، یہ لامحدود ہے، زندگی تو ایک سفر ہے، اس ڈگر سے اس ڈگر,
اس نظر سے اس نظر,
مہر سے قہر تک اور قہر سے مہر تک,
خوشی کی کہانی سے درد کی داستاں تک ,
زندگی سے موت اور موت سے زندگی بننے تک.
بہت سے لوگ زندگی کو جانتے ہی نہیں ہیں، جنہیں زندگی کا مقصد و معنی کا کچھ علم نہیں ہے اور یہ بد بخت لوگ زندگی کو جاننا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں، جنکی زندگی زندگی نہیں بلکہ درندگی ہے. جن کے لیۓ زندگی سونے اور اٹھنے کا نام ہے. جو اپنے روح کو اپنے وطن اور وطن باسیوں کی فکر, سوچ و بچار, احساس, درد و غم, خوشی و ہنسی, مہر و محبت, علم وفن اور قربانیوں کی غذا دینے کی بجائے پیٹ پوجا اور تھالی چاٹنے سے روح کو بہلاتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے ایسے تھالی چاٹ لوگوں کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی ہے. انکی زندگی زندگی نہیں بلکہ غلامی کی ایک زنجیر ہوتی ہے، جو انکی عزت کو ذلت بناتی ہے,
جو انکی دولت کو وبال بناتی ہے. انکی زندگی ایک اندھیر نگری کے مانند ہوتی ہے، جو جھوٹ, فریب, دھوکہ دہی اور غداری کی ایک کال کوٹھڑی جیسے ہوتی ہے اور ایسی زندگی کو موت بھی گلے لگانا نہیں چاہتی۔ ایسی زندگی سے موت کو بھی نفرت ہوتی ہے۔
یہی لوگ ہوتے ہیں، جو زندگی سے آخر کار موت کی بھیک مانگتے ہیں. اور پھر زندگی بھی انہیں ایک عبرتناک موت دیکر دنیا کی تاریخ میں سیاہ باب بنادیتی ہے۔
بہر حال ہم سب جانتے ہیں، جہاں دنیا میں زندگی سے عاری خود غرض, وطن فروش و ضمیر فروش اور تھالی چاٹ لوگ رہتے ہیں۔ اسی دنیا میں عین اسی وقت زندگی کو پیاری مہرزادے, کوہ زادے اور وطن زادے بھی بستے ہیں. جن پہ زندگی ناز کرتی ہے. انہی وطن زادوں میں سے ایک میرا فیسبک دوست جلال بلوچ تھا. چونکہ میں اتنی آن لائن نہیں ہوتی تھی. لیکن جب بھی آن لاہن ہوتی تو جلال بلوچ نامی آئی ڈی, جس کے پروفائل پہ آخری گولی کا انتخاب, ایک نئی سوچ کی بناء اور زندگی کو نیا رستہ دکھانے والے نرمزار امیر الملک کی تصویر رکھی ہوئی ہے, کہ پوسٹس ضرور میرے سامنے سے گذرتے تھے۔
شروع میں تو اتنی غور نہیں کرتی تھی، اس کے پوسٹس پر لیکن ریحان جان کی شہادت کے بعد میں نے اسکی ایک تحریر پڑھی جو مجھے بے حد اچھی لگی, جس نے میرے دل کو موہ لیا. اس کے بعد جب بھی فیسبک کھولتی تو جلال بلوچ کی آئی ڈی کو ضرور دیکھتی . اسکے لکھے ہوئے تحریر و شاعری کو پڑھ کر میری وطن سے میری محبت کو پروان چڑھتی۔
اس کی تحاریر سے مجھے سرفروشوں اور شہیدیوں کی خوشبو آنے لگتی تھی. اسکی تحریریں پڑھ کے میں اپنے کوہ زاد بھائیوں کو اپنے رو برو پاتی ہوں. اسکی تحریروں میں مجھے مہرگہوش, جو میری بہترین لکھاریوں میں سے ایک ہے, کا سایہ نظر آنے لگتا. جب بھی اسکی تحریریں پڑھتی تو مجھ میں سمجھو ایک نئی روح سماءجاتی .
میں سوچ کے سمندر میں ڈوب جاتی اور خود کو ڈھونڈنے لگتی کہ میں کون ہوں, کیا ہوں اور میرا کام کیا ہے۔
وطن کیا ہے اور پردیس کیا ہے, آزادی کیا ہے؟ اور غلامی کیا ہے؟
بندوق کیا ہے اور کتاب کیا ہے؟ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے؟
میں سوچتی رہتی جب تک مجھے ایک وقتی طور پہ موزوں جواب نہیں ملتی.
جو سوالات جلال بلوچ کی تحریروں سے میری دماغ میں پروان چڑھتے تھے، اسی جلال بلوچ کی تحریروں سے مجھے میرے جوابات مل جاتے تھے. لیکن حیرانگی اور افسردگی نے تب میرے وجود کو لپیٹ میں لیا جب مجھے ایک دوست نے بتایا کہ کل چینی قونصلیٹ پہ فدائی حملے میں شہید ہونے والے جلال بلوچ، وہ جلال بلوچ ہیں جو فیسبک پہ ہمیشہ وطن باسیوں کی روح کو جنجھوڑ کر زندہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
.
وہ جلال تھے، جو زندگی اور موت کے درمیان پیار و محبت کا رشتہ بیان کرتا تھا۔
وہ جلال تھے، جو فناء ہو کر لافانی بننے والوں کی لافانی قصے سناتے تھے۔.
وہ جلال جو وطن پرستوں, وطن پر مر مٹنے والوں لیجنڈز کی وطن سے عشق و جنون کی داستانیں بیان کرتا تھا۔
جی وہ جلال بلوچ جو وطن کی مٹی میں ماں کی ممتا کی سواد دیتا تھا۔
وہ جلال بلوچ جو پہاڑوں میں دوست کا شفیق سایہ اپنے دوستوں کے اوپر دکھاتا تھا۔
افسوس اور دکھ تو بہت ہوا، جلال بلوچ کے جانے سے لیکن اس سے زیادہ خوشی ہوئی کہ جو سبق اس نے میرے جیسے مریدوں کو دیا تھا، اسی کو عملی جامہ پہنا کے دکھایا. زندگی اور موت کے درمیان جو پیار کا رشتہ وہ بیان کرتے تھے، اسی کی ایک تصویر ہم نا سمجھو کے لیئے بنایا تاکہ ہم اس محبت کو اور اچھی طرح جان سکیں اور پھر بیان کرسکیں۔
وطن باسیوں کو ماں کی ممتا کا سواد چکھانے کے لیئے خود دشمن کو قہر و غضب کا سبق پڑھایا اور شفیق دوست کے سائے میں رہ کر جو زندگی دیکھی تھی، اسی زندگی کو اپنی جلالیت بنا کر جلال بن گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ان لیجنڈز کے ساتھ رہنے چلے گئے، جن کے عشق و جنون کی وہ داستانیں بیان کرتے تھے. وہی لیجنڈز جن پہ وطن آج ناز کرتی ہے.
جن کا نام سن کر وطن کے گواڑخ و سمن لہلاتی ہیں
جن کا ذکر سامنے آنے پر سر خود بخود ہی فخر سے بلند ہوتا ہے
جو ہمت جرئت اور بہادری کے بے مثال مثالیں ہے
وہ زندہ، وہ امر ہو گیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔