بھاشن بازی
ظریف رند
دی بلوچستان پوسٹ
ہمارا سماج بھاشن بازوں سے بھرا پڑا ہے اور انہی بھاشن بازوں کے ہاتھ ہمارے مقدر کا لگام بھی ہے۔ سیاسی پنڈالوں سے لیکر حکمرانوں کی ایوانوں تک اور تعلیم گاہوں سے لیکر چائے کے ہوٹلوں تک ہر جگہ بھاشن باز وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ دشمن سے لیکر مسیحائی کے دعویداروں تک سب کے سب بھاشن باز ہیں۔
مریض ڈاکٹر سے عرض کرنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب، کچھ دنوں سے میرے پیٹ میں شدید درد ہو رہا ہے، آپ دیکھیں ذرا ماجرا کیا ہے؟ تو ڈاکٹر صاحب روب جماتے ہوئے چھڑائی کرنے لگے کہ “تم گوار لوگ اپنے صحت کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ مہذب اقوام کی صحت کا راز جانیں اور سبق سیکھیں۔۔۔ یورپ کے لوگ صاف کھانا کھاتے ہیں، صاف فضا میں سانس لیتے ہیں، سکون سے وقت پر سوتے ہیں اور سکون سے صبح اٹھ کر کام پر چلے جاتے ہیں، کوئی ٹینشن نہیں لیتے، کسی کے کام سے کام نہیں رکھتے، بس اپنی دنیا میں مگن ہیں اس لئے ان کی عمر لمبی اور فقط طبّی موت ہی مرتے ہیں۔ مگر، یہاں کے لوگ؟ سب غیر مہذب ہیں۔ اس لئے بیمار ہیں ! یہ بھاشن سنا کر ڈاکٹر صاحب نے مریض کو دو دیسی درمان دیکر بِل تھمایا اور اگلے گاہک کو آواز دی۔۔۔ نیکسٹ!”
مریض نے باہر نکلتے ہوئے دل میں بڑ بڑایا “صاحب میں آواران سے ہوں !”
والدین کی نصیحتوں میں بھی سوائے بھاشن کے کوئی کارآمد مواد شامل نہیں ہوتا اور اسی طرح تعلیم گاہوں میں بھی پروفیسر صاحبان کی روز روز کی ایک ہی بھاشن سے طلباء پک گئے ہیں۔ سیاسی و سماجی رہبروں نے تو بھاشن بازی میں جیسے ڈاکٹریٹ کیا ہوا ہے۔ جہاں ماحول بنا دیکھا سامعین کے مزاج کی نزاکت سے دھر دیا بھاشن ! منطق دلیل سائنس سب کا ستیہ ناس۔ ۔ بس اپنی بات کر لی، داد سمیٹ لی اور سینہ تانے چل دیئے پرانے روٹین کی اوٹ۔ ۔ ۔
لگ بھگ ساڑھے تین ہزار دنوں سے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگے بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ماما قدیر وہ شخص ہیں، جنہوں نے بیشمار بھاشن سنے ہیں۔ اب تو وہ بھاشن سننے کے اتنے عادی معلوم ہوتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ انہیں کوئی آکر اپنا چورن بیچ دیں، ماما پہل کرکے اپنا بھاشن چِپکا دیتے ہیں۔ ماما کے جُہد کو پذیرائی اس وقت ملی جب چار سال پہلے انہوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور دنیا بھر کے انسانی حقوق کے علمبرداروں سے بلوچ مسنگ پرسنز کے بازیابی کی فریاد کی۔ اُس وقت جب ماما کی تحریک رواں دواں تھی تو سوشل میڈیا پر بڑا جوش و خروش نظر آرہا تھا، مگر یہ جوش بہت جلد ٹھنڈا پڑ گیا اور ماما ایک بار پھر اپنے اسی کیمپ میں اکیلے پڑ گئے۔ آج کل ماما کے کیمپ میں ایک بار پھر گرم جوشی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ایک اسٹوڈنٹس ایکٹوسٹ شبیر بلوچ جوکہ دو سال پہلے آواران سے لاپتہ کردیئے گئے تھے ان کی ہمشیرہ اور بیگم شبیر بلوچ کی رہائی کا مطالبہ لیکر ماما کے کیمپ میں آکر بیٹھی ہیں۔
دو دن پہلے انہوں نے شبیر بلوچ کی رہائی کے مطالبے کو وزیراعلیٰ بلوچستان تک پہنچانے کیلئے ریلی نکالی تو انہیں سیکیورٹی اہلکاروں نے راستے میں ہی روک لیا اور انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ مایوسی کے عالم میں ان دو بلوچ خواتین کی آنکھوں کے آنسو گنگاجل بن کر ٹپکتے رہے، جس سے نہ صرف ان کی بلکہ ہر زندہ روح کو جلاتے جاتے رہے۔ تب سے یہ فریادی خواتین سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں اور مسنگ پرسنز کا کیمپ ایک بار پھر توجے کا مرکز بنا ہوا ہے، جہاں روز لیڈر صاحبان اپنا پرانا چورن بیچنے اور بھاشن سنانے، پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ یقیناً ماما قدیر کی طرح سیما بلوچ کو بھی جلد عادت پڑ ہی جائے گی ان نام نہاد لیڈران کی کھوکھلی بھاشن کو سنتے رہنے کا۔
ایوان میں بیٹھے لیڈران جو مقتدر اعلیٰ کو یہ باور کرانے کیلئے اپنے بھاشنوں میں مختلف دلیل اور ثبوت پیش کرتے رہتے ہیں اور کوئی کان نہیں دھرتا، یہ ان کے لئے موقع ہے کہ وہ احتجاجا٘ بی بی سیمہ کے پاس کیمپ میں آکر بیٹھ جائیں اور اس مدعے کے حل تک نا اٹھیں۔ مگر ایسی توفیق کہاں ہمارے نمائندگان کو ہوگی۔ انہیں تو بس بھاشن بازی سے گزارا کرنا ہے کیونکہ ہمارے سوشل میڈیا نسل کو بھاشن سننے اور اسی پر خوش رہنے کا شوق ہے۔ اور اس نسل کو صرف وہ آنسو نظر آتے ہیں جو ایک بار سوشل میڈیا پر نظر آکر ٹرینڈ بن جائیں۔ وگرنہ دھرتی سطح سے نیچے خون و آنسوؤں کا سیلاب سمیٹ چُکی ہے جو کسی بھی وقت سب کچھ بہا کر لے جانے کیلئے آمادہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔