بانک سیمہ بلوچ کا تاریخی پریکشہ
تحریر: ظریف رند
دی بلوچستان پوسٹ
عظیم کمیونسٹ نظریہ دان فریڈریک اینگلز کہتا ہے کہ تاریخ میں ایسے لمحات آتے ہیں جب صدیوں تک سکونت ہوتی ہے اور کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی ہوتی ہے اور ایسے تاریخی موڑ بھی آتے ہیں، جب صدیوں کا فاصلہ دنوں میں عبور ہو جاتا ہے۔ بلوچستان تو ویسے ایک صدی سے مسلسل اور مستقل جدوجہد کے عمل میں سرگرم ہے لیکن اس دورانیئے میں بھی جمود و سکونت کے مراحل تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخی حرکت سے ہماری مراد سیاسی و سماجی جدوجہد سے ہے۔ اس تناظر میں جمود یا پھر اتار چھڑاو کے قابلِ ذکر مراحل تاریخ میں نقش ہیں۔ بلوچ وطن میں بیسویں صدی کے آخری دہائی کے سکونت نے اپنا اظہار اکیسویں صدی کے ابتداء میں کیا اور ایک دھماکہ خیز تحریک نے بلوچستان کی سیاست کو ایک نئی جہت دیکر اسے یکسر بدل کر رکھ دیا، مگر ڈیڑھ دہائی کی طویل کشمکش کے بعد تحریک دو انتہاوں میں منقسم ہو گئی۔ یعنی مسلح محاذ اور پارلیمانی موقع پرستی میں بٹ گئی اور کچھ سالوں کیلئے خوف و سیاسی جمود کا بسیرا ہو گیا۔ یقیناً یہ کم عرصے کا جمود صدیوں کے کرب ناک عہد سے مشابہ ہے کیونکہ ان چند سالوں کی جمود ہزاروں نوجوانوں کو نگل گیا اور لاکھوں گھروں کو ویران کر گیا۔ خوف و وحشت کے عالم میں زبانیں سِل گئیں، آنکھوں نے ہر منظر کو ان دیکھا کیا اور کانوں نے ہر نیک و بد کو ان سُنا کر دیا۔ اُجڑے گھروں کے باسی اپنے درد کو نا چھپا سکتے، نہ بیان کر پاتے اور نہ کوئی سننے کو تیار ہوتا۔ انتہائی کرب کے عالم میں گُزرتی اس عہد نے ایک نئی شعوری تبدیلی کی آبیاری کی ہے جو کہ ایک بار پھر بارود کا ڈھیر بن کر میدان کا رُخ کیا ہوا ہے۔
ہر عہد کے اپنے اپنے ڈائنامکس ہوتے ہیں اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق اپنا اظہار کرتی ہے۔ موجودہ معروض جوکہ شدید خوف و بربریت اور وحشت کے عالم میں پروان چڑھا ہے اور اس وقت میں پنپنے والا تحریک جوکہ اسی خوف و بربریت کی کوکھ سے جنما ہے اس کی حرکیات بھی قدرے مختلف ہیں۔
خطے کی مجموعی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ریاستِ پاکستان کے اندر مقتدر اعلیٰ کی ہٹ دھرم پالیسیوں کے سبب محکوم قومیتوں کے اندر ایک شدید انسانی بحران جنم لے چکا ہے جوکہ انسانیت سوز پالیسیوں پر مبنی دہائیوں پر محیط ہے جس سے محکوم عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر شدت کے ساتھ عوامی تحریک کی صورت میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ پشتون سماج پر مختلف سامراجی جنگوں کی وجہ سے پشتون قوم انگنت نقصانات بگھت چکی ہے، جس کے خلاف بالآخر ایک تحریک نے سر اٹھا لیا ہے جوکہ روایتی پشتون قیادت کے برعکس ایک نئی قیادت کو ڈرائیونگ سیٹ پر لے آئی ہے، جس کا چہرہ منظور پشتین ہیں۔ منظور پشتین کی باہمت قیادت نے خطے کی تمام محکوم اقوام کو نئی طاقت و جلا بخش دی ہے اور پورا سماج پولرائیزیشن کا شکار ہوا ہے، جس سے یقینی طور پر بلوچ سماج کی جمود کے ایّام کو بھی مختصر ہونا پڑا ہے اور یہاں بلوچستان میں بھی ایک بار پھر عوامی غم و غصہ نئی راہیں تاک رہی ہے۔
پشتون تحریک کی طرح بلوچ سماج کا مدعا بھی انسانی حقوق کے تحفظ کا ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مدعا ہے۔ یہ مدعا تو بہت پرانا ہے مگر اس کے لئے اٹھنے والی آوازیں فقط لاپتہ افراد کے لواحقین کی ہی رہی ہیں، مگر چونکہ اب ایک نئی پولرائیزیشن شروع ہو چکی ہے تو اس میں رفتہ رفتہ عوام کا جم غفیر شامل ہوتا جا رہا ہے۔
بانک سیمہ بلوچ، جوکہ دو سال قبل لاپتہ کیئے گئے بلوچ طلبہ ایکٹوسٹ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ ہیں وہ دو ہفتوں سے شبیر بلوچ کی بازیابی کا مدعا اٹھا کر کوئٹہ پریس کلب کے باہر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں شبیر بلوچ کی اہلیہ کے ہمراہ دھرنا دیئے بیٹھی ہیں اور اپنی بروقت و بااثر کیمپین کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوام کا توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے بلوچ قوم پرست رہنما اختر مینگل صاحب اس مدعے کو الیکشن کیمپین اور پارلیمان میں اچھالتے رہے ہیں، جس سے ان سے بھی بڑے پیمانے پر توقعات کی لڑیاں باندھی جا چکی ہیں۔ مگر بانک سیمہ بلوچ کے دھرنے نے اس مدعے کو فیصلہ کُن موڑ کی طرف گامزن کرنے کا تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے جسے وقت کے ساتھ مزید طاقت و توانائی ملتی جا رہی ہے۔
کسی بھی عوامی تحریک کی طرح عوام اپنے غم و غصے کا اظہار اپنے روایتی تنظیموں کی چھتر چھایہ میں جاکر کرتے ہیں اسی طرح بانک سیمہ بلوچ بھی حسبِ روایت قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ جا پہنچی اور اسی پلیٹ فارم کے توسط سے اپنے ڈیمانڈ پیش کر رہی ہیں۔ مگر معروض کا تقاضہ اس سے ایک قدم آگے بڑھنے کا ہے۔ بانک سیمہ بلوچ کو اس کا ادراک کرنا پڑیگا۔ سیمہ بلوچ کو سمجھنا پڑیگا کہ وہ بیشک صرف شبیر بلوچ کا مدعا لیکر یہاں آئی تھی مگر اس کی جرات کو دیکھ کر سینکڑوں لاپتہ اسیران کے لواحقین ان کے ساتھ جُڑ چکے ہیں اور ان کے پیچھے کھڑے ہزاروں کی تعداد میں عوام سیمہ بلوچ سے قومی قیادت کا ڈور سمبھالنے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ یہی عہد و معروض کا تقاضہ بھی ہے۔
تاریخ کے بے رحم فیصلوں کو سمجھنا اور اس کے امتحانات کو قبول کرنا، ہر عہد کے انقلابی قیادت کا فرض ہوتا ہے اور اس فرض شناسی کا ادراک بے حد ضروری بھی ہے۔ روایتی رہنماوں سے یہ آس لگانا کہ وہ پارلیمان سے کچھ حاصل کروا کہ دینگے یا پھر یہ سوچ کہ عوامی تحریک کو مسلح مورچوں سے تپایا جا سکتا ہے، یہ ایک بھول ہوگی۔ عوامی جذبات چوک و چوراہوں اور کھیت و کھلیانوں کی بھٹی میں تپ کر فولادی تحریک کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہیں اور ہر انقلابی تحریک اپنی قیادت خود تراش لاتی ہے۔ بانک سیمہ بلوچ کو تاریخ نے شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سے بڑھ کر عزت سے نوازا ہے اور انہیں قومی حیثیت سے سوچنے اور فیصلہ لینے کا عظیم موقع فراہم کیا ہے۔ وہ روایتی کیمپ جو تحریک کو سردمہری کا شکار بنا دیں یا تاخیر در تاخیر کی دلدل میں پھنسا دیں انہیں چیر کر آگے بڑھنا ہوگا۔
یہ اس عہد کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ بانک سیمہ بلوچ ایک متحدہ قومی محاذ تشکیل دیں، جس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سے لیکر دیگر ترقی پسند قوتیں بھی شامل ہوں اور وہ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے خلاف جدوجہد کو مزید منظم کریں۔ یہ فرنٹ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی، انسانی حقوق کے تحفظ اور پرامن سیاسی فضا کی بحالی کیلئے موثر انداز میں جدوجہد کرے. یقیناً نئے محاذ کی تشکیل ہمیشہ پرانے روایتی قیادت کو ناگوار گزرتی ہے اور وہ اسے اکثر اوقات تقسیم و تخریب سے تشبیہہ دیتے ہیں، مگر معروض کسی کی تب و منشاء کے مطابق فیصلے صادر نہیں کیا کرتی۔ بلوچ سماج کا ہر پرت ایک نئے سائنٹیفک متبادل کا متقاضی ہے۔ اس نہج پر رٹے رٹائے روایتی الفاظ و نعرے نامکمل اور بے اثر ہیں۔ اس لئے ایک موثر قوت کی تشکیل ہی عہد کا تقاضہ ہے۔ اسی موضوعی عنصر کو معروض سے ہم آہنگ کرکہ فتح و کامیابی کی راہیں استوار کی جا سکتی ہیں۔ جمہوری و آئینی اقدار کا پالن کرتے ہوئے تحریک کو درست راستہ فراہم کرنا پڑیگا وگرنہ جذبات کے بلبلے ہوا ہونے میں وقت نہیں لگاتے۔
اس متحدہ محاذ کو پی ٹی ایم، دیگر ترقی پسند سیاسی قوتیں اور انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ جوڑ کر جدوجہد کو اور بھی زیادہ وسعت دیا جا سکتا ہے۔ یہی بانک سیمہ بلوچ کی جرات کا تاریخی پریکشہ ہے اور اسے بہر صورت انہیں پار کرنا ہوگا۔ بانک سیمہ بلوچ پر نظریں جمائے ہم جیسے ہزاروں ادنی سیاسی کارکنان یہ امید کرتے ہیں کہ وہ انسانیت کی علامت بنیں گی اور تاریخ میں سُرخ رو ہونگی۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔