بات مڈل کلاس اور سردار کی نہیں کردار کی ہے – کوہ کرد بلوچ

580

بات مڈل کلاس اور سردار کی نہیں کردار کی ہے

کوہ کرد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک میں ایک چیز کافی حد تک ہر کوئی عام و خاص جانتا اور سمجھتا ہے، وہ ہے سردار و مڈل کلاس کے نام پر سیاست، بقول انگریزی میں فیکٹ اینڈ فگرز(fact and figures) کی باتیں کرتے ہیں کہ اصل میں اس نعرے کی پیچھے کیا ہے اور اس کی اصل وجوہات کیا ہیں، کیوں بلوچ سیاسی کارکنان، بلوچ ادیب و دانشور یہ کہتے ہیں کہ سردار ایک عام بلوچ کی طرح اس جدوجہد میں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرتا؟ یہاں بات شروع کرنے سے پہلے بلوچ لکھاری اور ادیب عابد میر کی یہ باتیں لکھنا چاہتی ہوں، عابد میر صاحب فرماتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک اگر سرداروں کا ہے اور کل کو آزادی کے بعد سردار بلوچستان میں اپنی طرز طریقے سے ملک کو چاہیں گے تو ہم پاکستان کی غلامی میں بہتر ہیں۔ سوچنے کی بات ہے، آج تک ہم نے یہی دیکھا ہے کہ سرداروں کی غلامی میں نہ تعلیم ہے نہ علم و زانت ہے، نہ اسکول ہے، بس ایک چیز ہے کہ سردار سب کچھ ہے اور سردار کے کہنے پر ہم جنگ کریں، ہمارے ساتھ ہمارے خاندان کا بچہ بچہ تباہ ہوجائے جبکہ خود سردار اور ان کی فیملی لندن اور یورپی ملکوں میں عیش و عشرت کریں، یہ ممکن نہیں پاکستانی غلامی میں آئین کا حوالہ دیں، کچھ بات کر سکتے ہیں کچھ لکھ سکتے ہیں لیکن سردار کی غلامی میں یہ بھی ممکن نہیں۔

بلوچ قومی تحریک میں بلوچ سرداروں کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا، چاہے وہ نواب خیر بخش مری صاحب کا کردار ہو، چاہے وہ شہید نوروز خان، محراب خان اور نواب اکبر بگٹی کا کردار ہو، ان کی جدوجہد ان کی قربانیوں سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا، جنہوں نے اپنی زندگی کے سارے عیش و آرام چھوڑ کر قومی تحریک کو لیڈ کیا۔ پاکستان اور دوسرے قابضوں سے جنگیں کی یہاں تک اپنی جانوں کی قربانی تک دی لیکن جب استاد اسلم، بشیر زیب اور بلوچ قومی تحریک کے سرخیل رہنما ڈاکٹر اللہ نظر پر سوالات اُٹھ سکتے ہیں، جن کی قربانیوں کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا جنہوں نے اپنے بچوں، بھانجوں، بھائیوں سب کی قربانی دی ہے تو نواب اور سردار کس باغ کے مولی ہیں کہ انہوں نے اگر قربانی دی ہے تو ان پر سوالات نہیں اُٹھ سکتے؟ بلوچ قومی تحریک کے بانی خیر بخش مری نے قربانی دی ہے تو ان کے آزادی پسند بچے حیربیار اور مہران سے سوالات نہیں کئے جا سکتے، نواب اکبر بگٹی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے تو ہم نواب براھمدغ بگٹی سے کوئی سوالات پوچھ نہیں سکتے، یہ کس آئین و قانون میں لکھا ہے؟ اگر بلوچ رہنماء آج ڈاکٹر اللہ نظر نے قربانی دی ہے اپنی عیش و عشرت کی زندگی کو قربان کرتے ہوئے، پہاڑوں میں جاکر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، تو کل کو جب ان کے بچے تحریک میں حصہ دار ہوکر جدوجہد کریں تو ہم ان پر سوالات نہیں اٹھا سکتے۔ ان باتوں کا سیدھا سادہ مقصد یہی ہے کہ بات سردار اور مڈل کلاس کی نہیں بلکہ بلوچ سیاست سے تعلق رکھنے والے کرداروں کے اعمال پر ہوتا ہے۔ چاہے وہ کوئی نواب ہو، چاہے وہ کوئی سردار ہو، چاہے وہ کوئی خاندانی غریب ہو، چاہے وہ کوئی بلوچ فنکار ہو جنہیں ہم لوڑی کہہ کر پکارتے ہیں۔

ہر کسی کے اعمال کو ترازو میں تول کر تنقید کی جاتی ہے لیکن بدبختی سے بلوچستان میں سب سردار سیاسی حوالے سے نا پختہ ہیں جو تحریک میں ایک عام بلوچ لوڑی کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں، جب تک وہ اس کا پابند نہ ہو، جب تک وہ اس کے نیچے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا، اگر ایک لوڑی کو اسکول مہیا نہیں اور سرداروں کے بیٹے جاکر لندن اور یورپ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو لازماً انگلش میں تو وہی بہتر ہونگے لیکن چونکہ اب یہ اکیسویں صدی ہے بلوچ نوجوان پڑھے لکھے ہیں، جب سب چیز کی سمجھ آچُکی ہے، جو سیاست بھی جانتے ہیں اور سیاسی طریقہ کار سے بھی واقفیت رکھتے ہیں، اب وہ بھی پڑھنے لگے ہیں، اس لیئے وہ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچ کیلئے کون سہی اور کون غلط ہے اس لیے اب وہ آپ سے سوال کرنے لگے ہیں آپ پر تنقید کرنے لگے ہیں، یہ قومی تحریک ہے جو پچھلے تحریکوں کی طرح ایک سردار سے وابستہ نہیں کہ سردار نے ہتھیار پھینک دیا اور جنگ ختم ہو گئی بلکہ یہ تحریک عام بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے، جو پڑھے لکھے ہیں جنہیں سوالات کرنا آتا ہے۔ جو آپ کے کردار پر آواز اٹھانا جانتے ہیں اب وہ وقت نہیں کہ سردار کا حکم ہے اور چلے چلیں، اس کے محرکات کیا ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اب بندوق پڑھے لکھے بلوچ نوجوانوں کی ہاتھ میں ہے، جن میں کسی نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے، کسی نے ایم بی بی ایس پاس کیا ہے، کسی نے لٹریچر میں بی اے کیا ہے، کسی نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی ہے، کسی نے پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہے، یہ کوئی معمولی لوگ نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جنہیں سب کی سمجھ ہے، جو سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں، اس لیئے اب بات بس سردار کی نہیں ہوتی بلکہ سیاسی طریقے اپناتے ہوئے دلیل کے ساتھ بات کرنی ہوتی ہے، جس کا واضح مثال حالیہ وقت میں سردار حیربیار مری کے فیصلے پر بی ایل اے کے سارے پڑھے لکھے دوستوں نے لندن والوں کو چھوڑ کر حیربیار کے فیصلے کی مخالفت کی، جو دلیل چاہتے تھے، شہید ضیاء اور شہید فتح قمبرانی سمیت سارے پڑھے لکھے دوستوں نے استاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بات سردار اور مڈل کلاس کی نہیں بلکہ کردار کی ہے۔

اب ڈاکٹر اللہ نظر، استاد اسلم، چیئرمین خلیل بلوچ گراؤنڈ میں موجود ہیں، قوم کے ساتھ ہیں، گولیوں اور توپوں کا سامنا کر رہے ہیں، اپنے خاندانوں سمیت گراؤنڈ میں موجود ہیں، اپنے سپاہیوں کے ساتھ ہیں، اپنے کامریڈوں کے حوصلے اور ہمت بنے ہوئے ہیں، یہاں سے مجھے سکندر اعظم کا یہ قصہ یاد آ گیا کہ جب وہ بلوچستان سے گذر رہے تھے تو یہاں انہیں کافی بھوک اور پیاس کا سامنا کرنا پڑا، جس کی آدھی فوج بھوک اور پیاس سے مر رہے تھی اور کہیں سے کچھ پانی کا بندوبست ہوا، جب وہ پانی کے قطرے سکندر اعظم تک پہنچائے گئے تو اُنہوں نے ایک بار اپنے سپاہیوں کو دیکھا جو سب پیاس اور بھوک سے نڈھال ہو چکے تھے، انہوں نے اس پانی کے ڈبے کو پھینک دیا، یہیں سب سپاہیوں کی مایوسی مات کھا گئی اور سب سکندر کے پیچھے پھر سے ایک زندہ امید کے ساتھ نکلے، سیدھے سادھے الفاظ میں لیڈر یہی ہے، جو قوم کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ مشکل وقت میں برابر کھڑا رہے۔

یہ کرشماتی، چمتکاری، جادوئی لیڈر جس کا قوم بے گھر ہے، جنہیں فوجی آپریشن کا سامنا ہے، جن کے بھائیوں اور بیٹوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، جنہیں کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی میسر نہیں، جو ہر روز لاشیں دیکھتی ہیں، جن کے گھر بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں، ماؤں کے جوان بیٹے غائب ہیں، بہنیں اسی اثناء میں شادی کے بندھن سے بند رہے کہ ایک دن ان کا گمشدہ بھائی آئے گا، بوڑھی ماؤں، جوان بچوں کے انتظار میں مر رہے ہیں اور لندن کے عیش و عشرت میں بیٹھا بلوچ آزادی پسند کارکن علی رفائی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ بلوچ بہنوں اور ماؤں کو حکومتی اداروں سے اپیل کرنے کی ضرورت نہیں ان سے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بھائی آکر بلوچستان میں قدم رکھ کر دیکھو آپ کے قدم ڈگمگائیں گے، لندن میں بیٹھ کر ماؤں اور بہنوں کو یہ آرڈر جاری کرنے سے پہلے ایک ماں اور بہن کی درد کو سمجھتے، ہم دشمن سے گلہ کرتے ہیں کہ ہماری مائیں روڈوں پر ہیں اور وہ ہماری فریاد نہیں سنتے، جبکہ سردار کے چاہنے والے لوگ لندن سے آرڈر جاری کرتے ہیں، آپ سے بہتر تو قوم کیلئے وہ لوگ ہیں، جو پاکستان کے آئین کا پابند ہوتے ہوئے بھی ان ماؤں کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے ہمراہ داری کر رہے ہیں ان کے کمپین میں حصہ دار ہیں کہ ان کے گمشدہ پیاروں کو بازیاب کرائیں جبکہ آپ اپنا ہوتے ہوئے بھی لندن میں بیٹھ کر ہمدردی کیلئے ٹویٹ بھی نہیں کر سکتے اور آرڈر جاری کرتے ہیں کہ بلوچ بہنوں اور ماؤں کو یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے۔

آج یہی سردار جو باہر ملکوں میں عالیشان بنگلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور بلوچستان کے روتے ہوئے بچوں کیلئے ٹویٹ کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور تحریک اور بلوچستان کو اپنے باپ کا جائیداد سمجھ کر آرڈر جاری کرتے ہیں، ہمیں سب بلوچ عزیز ہیں، چاہے وہ کوئی نواب و سردار ہو، یا ایک لوڑی، ہمارے لیئے سب برابر ہیں، آؤ ڈیرہ بگٹی اور بولان کے پہاڑوں پر بلوچ سرمچاروں کے ساتھ رہو، بھوک افلاس اور مفلسی برداشت کرو، یہ میرا وعدہ کہ آپ کی باتیں ہمارے سر آنکھوں پر ہونگے نا بلکہ ہمارے لیئے بلکہ سب بلوچ قوم کیلئے لیکن اس طرح نہیں کہ لندن کے بنگلوں میں بیٹھ کر پانچ فیک آئی ڈیز سے اپنا فوٹو لگوا کر بلوچوں کو آرڈر جاری کرتے رہیں۔

اگر باہر بھی بیٹھے ہو اپنی زمہ داری پورا کرو لیکن کبھی استاد کو معطل کیا جاتا ہے، کبھی اُستاد گلزار کو فارغ کیا جاتا ہے کہ لندن اور سوئٹزرلینڈ میں بیٹھ کر ہم جو چاہیں، وہ کیا جائے والا فارمولا، اب نہیں چلے گا اپنا کردار صحیح بناؤ تو کوئی بھی آپ کو بُرا نہیں کہے گا، سب آپ کا ساتھ دینگے لیکن اس طرح قبائلی طریقے سے اپنی من مانی چلانا ممکن نہیں ہے۔

دوستوں یہ باتیں میں کسی جذبات میں بہک کر نہیں کر رہا بلکہ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جانچنے پرکھنے اور سمجھنے کے بعد لکھ رہا ہوں اور نا یہاں میں کسی مڈل کلاس کی رہنمائی کر رہا ہوں، اگر کل کو یہی عمل استاد اسلم، اختر ندیم اور کسی دوسرے لیڈر سے بھی سرزد ہو تو اُنہیں میں بھی اسی طرح تنقید کا نشانہ بناؤں گا، ہمارے لیئے سب ایک ہیں لیکن ہمیشہ خاموش رہ کر یہ کہنا کہ ان باتوں سے انتشار پھیل جائے گا، حقیقت کبھی بھی سامنے نہیں آئے گا، ہم سیاسی کارکن ہیں، ہر سیاسی کارکن کو ان حالات کو دیکھ کر اپنا رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی رائے قائم کرنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ تنظیمی راز اور تحریک سے جُڑے اندرونی اور خفیہ باتیں میڈیا کی زینت بنائیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔