انسان حقائق تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟
سنگت شیر جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ :کالم
اگر دیکھا جائے تو انسان قدرت کا ایک ایسا نایاب کرشمہ ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ایسی صلاحتیں ودیعت کی گئی ہیں جو دوسری جانداروں میں نہیں پائے جاتے.
انہی خاصیتوں کے بنا پر کسی بھی چیز کی کھوج لگانے اور اپنے خداداد صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر غور و تحقیق کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس پر کسی بھی قسم کی پابندی نہیں لگایا ہے.
انہی حقائق کے پیش نظر غور طلب بات یہ ہے کہ اتنے خوبصورت اور خدا داد صلاحیتوں کا مالک جاندار غلط کام کیسے کرسکتا ہے؟
پس یہ بات ہر باشعور انسان کو مجبور کرتا ہے کہ درج بالا مذکورات کو سمجھنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر حقائق تک پہنچ جائے.
سوال یہ ہے انسان حقائق تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟
انسان کی مادی زندگی میں بہت سی صلاحیتیں کام کرتی ہیں اور انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے محویت یا ارتکاز توجہ ضروری ہے.
جب انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو مجتمع کرکے یکسوئی سے معروضات پر غور و فکر کرنے لگتا ہے تو اپنے ارد و گرد کے مظہرات کو جاننے اور سمجھنے میں کامیابی اور رواں دواں کائنات کے اسرارات سے آشنائی حاصل کرسکتا ہے.
ہم جہاں رہتے ہیں. جس سماج میں پیدا ہوئے ہیں. حقیقتاً آزادی کے ساتھ ایک فطرت کے تحت پیدا ہوئے ہیں اور بحیثیت فرد یا قوم ہمیں ایک آزاد زندگی گزارنے کا حق بھی حاصل ہے. مگر کئی عرصوں سے ایک غیر فطری غلامانہ سماج کے اندر رہ کر لاشعوری طور پر انہی سماج کے رنگ میں ڈھل گئے ہیں، جس سے ہم انہی غلامانہ سماج کو اپنی زندگی کی حصہ سمجھ کر اسے بدلنے میں ناکام رہے ہیں.
مگر جب ہم خدا کے ودیعت کردہ صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر غور و فکر کرتے ہیں تو انہی بنیادی فطری حق کے کھوجنے و تلاشنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں کہ آزادی ہمارا حق ہے، جس سے ہم اپنے اندر اس ظالمانہ سماج کو بدلنے اور جنگ کرنے کی جرات پیدا کرسکتے ہیں. صرف یہ انسانیت کی معراج ہے اور ہر انسان کی فطری آزادی، دوسری معنوں میں انقلابی راستہ کہ اسی راستے پر بہت سے عظیم انسانوں نے اپنی جان تک کی قربانی دینے سے گریز نہ کیا.