خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے کراچی کی قریب 10 اہم شاہراہیں بلاک کر رکھی ہیں۔ پاکستان کے پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز کے مطابق ایسی ہی صورتحال پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی بھی ہے، جہاں اسکول بھی بند ہیں۔
روئٹرز کے مطابق تحریک لبیک پاکستان نامی مذہبی جماعت کے احتجاجی ارکان کراچی شہر کی بند کی ہوئی دو اہم شاہراہوں پر لگائے گئے ٹینٹوں میں تقاریر سن رہے ہیں۔ ایک خطاب میں ایک شخص لوگوں کو بتا رہا تھا کہ اگر پولیس جلتے ہوئے ٹائروں کو بجھانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ نئے ٹائروں اور دیگر اشیاء کو آگ لگا دیں۔
یہ مظاہرین پاکستانی سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس میں ایک مسیحی خاتون کی سزائے موت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ چار بچوں کی والدہ آسیہ بی بی کو پیغمبر اسلام کی شان میں مبینہ گستاخی کے الزام میں ایک زیریں عدالت نے 2010ء میں سزائے موت سنا دی تھی۔
تاہم اس فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ناکافی شواہد اور گواہوں کے بیانات میں تضادات کے سبب اس سزا کو ختم کر دیا۔ اس بینچ کی سربراہی پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے۔
اس فیصلے کے فوری بعد پاکستان کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ اسی تناظر میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بدھ 31 اکتوبر کو اپنے ٹیلی وژن خطاب میں مظاہرین کو متنبہ کیا کہ وہ شر پسند عناصر کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں اور ریاست کے خلاف اقدامات سے گریز کریں ورنہ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا، ’’ہم املاک کو نقصان پہچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔۔۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ ریاست کو اُس حد تک نہ لے جایا جائے کہ وہ کارروائی پر مجبور ہو جائے۔‘‘
عمران خان کے خطاب سے قبل تحریک لبیک پاکستان کے ایک سینیئر رہنما کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار اور دیگر دو جج ’واجب القتل‘ ہیں۔ محمد افضل قادری نے لاہور میں ایک مظاہرے کے دوران کہا، ’’یہ تینوں واجب القتل ہیں۔ انہیں ان کے سکیورٹی گارڈز، ڈرائیور یا باورچی قتل کر دیں۔‘‘
قادری نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور پاکستانی فوج کے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف بغاوت کر دیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق حافظ سعید نے بھی کل نماز جمعہ کے بعد احتجاج کی کال دی ہے جبکہ ایک اور مذہبی گروپ ملی یکجہتی کونسل کے رہنما بھی آج جمعرات یکم نومبر کو ملاقات کر رہے ہیں جس میں آسیہ بی بی کے معاملے پر غور کیا جائے گا اور اس کے بعد مظاہروں میں شرکت کا فیصلہ کیا جائے گا۔