گستاخی معاف، چھری گھمالیں – سمیر جیئند بلوچ

194

گستاخی معاف، چھری گھمالیں

تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے دانشوروں کا ماننا ہے کہ بلوچ سوسال گذرنے باوجود اپنے دشمن سے بدلہ لیئے بغیر اسے معاف نہیں کرتاچاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقہ یا افراد سے کیوں نہ ہو یقیناً اس طرح کے واقعات کے شواہد اشرافیہ سے لیکر مظلوم تک سب میں یکساں مل ہی جایا کرتے ہیں۔ یعنی ہر حال میں مظلوم بھی اپنا بدلہ مخالف سے لیکر ہی دم لیتاہے۔ اس قسم کے سینکڑوں واقعات بلوچ تاریخ کا حصہ ہیں جنھیں کوئی ذی شعور ٹھکرا نہیں سکتا۔

بلوچ کے بدلہ لینے کی بابت جب ایک ماہرقانون سے بات ہوئی اور اس حوالے سے ہم نے سوال اٹھایا کہ آپ اکثر و بیشتر بلوچ سماج کے اندر رہتے ہوئے انکے مختلف کیس لڑتے آرہے ہیں، کسی ایک فریق کے حق اور دوسرے کی مخالف میں توانکا ذاتی تجربہ اومشاہدہ کیا بتارہا ہے کہ بلوچ بحیثیت دشمن او دوست کے کس حد تک جاسکتاہے؟ انہوں نے بتایاکہ حقیقت میں بلوچ بحیثیت ایک فرد یا سماج کے انتہائی ایماندار اور کٹر ہوتے ہیں، وہ یہ جانتے ہوئے کہ اقرار جرم کرنے پر مجھے سولی پر چڑھایا جائے گا مگر اس کا پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا اقرار جرم بڑے فخر سے کرتا ہے کہ ہاں میں نے اپنا ’’بیرکیاہے‘‘یعنی اپنا بدلہ لے لیا ہے۔ جہاں تک پاکستانی عدالتوں کا تعلق ہے تو ان کا سنگ بنیاد ہی جھوٹ اور منافقت پررکھی گئی ہے۔ جب وہاں بلوچ پہنچے بھی تو بسم اللہ سے اپنا سچ بتاہی دیتا ہے۔ مگربعد میں وہاں انھیں الٹا پٹی پڑھاکراور انکے ساتھ جھوٹ بول کر انھیں ورغلایا جاتا ہے کہ یہ بات عدالت میں ایسا کہو تو تمہارے کیس کا بھلا ہوگا ورنہ سچ کہنے پر کیس آپ کے ہاتھ سے نکل کر آپ کے دشمن حریف کو فائدہ دینے لگے گا، بھلے آپ کے چشم دید گواہ ہوں اس کے باوجود بھی اس میں قانونی نقص مخالف وکیل کے جرح کرنے پر پیدا ہونگے وغیرہ نتیجتاً دشمن بری ہوکر تیرے سامنے دندناتا پھرے گا۔

انھوں نے بتایاکہ اگر کسی مجرم کو عدالت سے سزا ہوا یا کوئی ملزم بری ہوا بھی دونوں صورتوں میں انکی دشمنی ختم نہیں ہوتی، تا وقتیکہ وہ کسی معزز شخص کے سامنے اپنے دشمنی کے اصل اسباب بیان نہ کریں، وہ چین سے نہیں بیٹھتے دوسری صورت میں دشمنی صدیوں برقرار رہتا ہے، جس میں بیسیوں افراد ہردو سائیڈ سے دشمنی کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ جب ان سے دریافت کیا جائے کہ اگر بدلہ لینا تھا تو یہ عدالتی چکر اور پیسہ لٹانے کا کیا فائدہ تو وہ لمبی آہیں بھرکر بتاتے ہیں کہ اچھا ہوا دشمن کا پیسہ اور وقت کا ضیاع ہوا۔ اس دوران کہا جائے کہ تونے بھی تو دونوں چیزیں اسی طرح گنوا دیں؟ لیکن وہ فخر سے کہے گا کہ میرا کلیجہ توٹھنڈا ہوگیا، پیسوں اور وقت کی ہمیں پرواہ نہیں۔

اس بات کے بعد دانشوروں کے رائے کا احساس شدت سے دامن گیر ہوتا ہے کہ واقعی بلوچ ایک سو نہیں اگر اس کی زندگی ہزار سال بھی ساتھ دے یا نہ دے مگر وہ یا اس کے خاندان کے افراد مخالف سے بدلہ لیئے بغیر نہیں رہتے ہیں۔ چاہے اس کیلئے انکا پورا خاندان موت کے منہ میں نہ چلاجائے۔ دوسری صورت پھر تصفیہ ہے، اگر تصفیہ ہوجائے تو وہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جڑہی سے ختم ہوجاتی ہے، فریق شیرو شکر ہوجاتے ہیں یعنی دشمنی میں فساد ختم نہ ہونے کا جس طرح خود بخود نام نہیں لیتا اس طرح تصفیے بعد یہ مسئلہ کبھی بھی سر ہی نہیں اٹھا تا۔ مطلب یہ کہ بلوچ دونوں صورتوں میں قابل بھروسہ ہیں۔

اس تناظر میں جب ہم حالیہ بلوچ آزادی کے جہد دوران ایسے مسائل کو باریک بینی سے دیکھتے یا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے کہ بلوچ سرمچاروں کا یہ فرض منصبی اور اولین حق بن جاتاہے کہ وہ آپسی جنگ کا فریق بنیں، ناہی انھیں سکین دیں کہ وہ برادرکشی کو آگے بڑھائیں۔ ایک قومی سپاہی کے ناطے کسی کو فریق بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم بنیں چاہے مخالف کی ذاتی دشمنی میرے خاندان اور خونی رشتوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ہم فریق کے بجائے ثالث بنیں گے تو یقیناً دونوں فریقوں کو مجبور ہونا پڑے گا کہ وہ اپنے برادری ہی میں اس مسئلے کو گفت و شنید سے حل کریں۔

بالفرض مال ثالثی میں ناکامی ہوجاتی تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہر دو فریق کو یہ باور کرائیں کہ میں آپ میں سے کسی کا فریق نہیں ہوں، تب جاکر ایک قومی سپاہی، خاندان، برادری یا قبیلے سے نکل کر قومی دہارے میں شامل ہونے کے قابل ہوگا۔ بے شک دونوں فریق ایک دوسرے کو قصائی کی طرح کاٹنے لگیں مگر وہ قومی سپاہی کی دشمنی ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ وہ اپنے غیر اعلانیہ قول کے پکے ہیں۔ اس کے علاوہ سرمچاروں کو دونوں فریقوں پر نظر رکھنا ہوگا کہ کہیں ایک فریق دوسرے فریق کو سرمچار کے گھمنڈ میں نیچا تو نہیں دکھا رہا ہے، اگر ایسی صورت نظر آئے تو انھیں روکنا ہو گا، اگر نہیں روکا گیا تو لا محال دوسرا فریق بھلے انتہائی کمزور شکل میں ہی کیوں نہ ہو وہ سرمچار ہی کو بلی کا بکرا بناکر اس کے گردن پر چھری چلانے میں کامیاب ہوگا۔ اس کیلئے وہ لمحہ بہ لمحہ کسی طاقتور چاہے وہ تنکا ہی کیوں نہ ہو وہ سہارا بنانے کی کوشش میں رہے گا۔

بقول وکیل کے جہاالت کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنا بدلہ لینے کیلئے مخالف کے کسی اچھے لکھے پڑے شخص چاہے اس کا تعلق متعلقہ خاندان کے بجائے دور کے رشتہ داروں یا قبیلے سے ہی کیوں نہ ہو، چن چن کر نشانہ بناکر اپنا بدلہ لینے کی کوشش کریں گے، بھلے اصل قاتل اس کے سامنے دن رات دندناتے پھرے، مگر وہ اسے ہی نشانہ بنائے گا جسے وہ قاتل سے سوگنا اعلیٰ سمجھے گا۔ اب قومی سپاہیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی صورت میں کسی بھی تنکے جیسے مسئلہ کو سنی ان سنی بجائے گہرائی سے لیں کیونکہ اس مسئلے میں کسی نہ کسی طرح وہ فریق کی حیثیت سے ان ڈائریکٹ ہی صحیح دوسرے فریق کے نظر میں شامل ہیں یا شامل کئے گئے ہیں، اگر قومی سپاہی اپنے سطحی سوچ کے بدولت یہ سمجھے کہ میں تو تنظیم یا پارٹی کی بدولت اس سے ہر حوالے حاوی سے بھاری ہوں تو بھی احمقوں کے جنت میں رہنے کے مترادف مانا جائے گا کیونکہ وہ ہر حوالہ سے دوسرے فریق کا جوابدہ ہے۔ یا مسئلہ حل نہ ہونے تک من و عن یہ تسلیم کرے کہ میں اس مسئلے میں ایک اہم فریق ہی ہوں لہٰذا اس وقت تک ہوشیار رہوں جب تک کوئی اس مسئلے کا سبیل نہ نکلے کیونکہ وہ ذاتی دشمنی میں آخری حد تک جا سکتا ہے چاہے اس کیلئے اسے قابض ریاست کیلئے جاسوسی ہی کیوں نہ کرنا پڑے، وہ ہر قیمت چکانے کیلئے اپنی جہالت کی وجہ سے تیار ہے۔

 

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔