کیپٹن قدیر اور اب جلیل ایک ریاستی مُہرا – کوہ دل بلوچ

372

کیپٹن قدیر اور اب جلیل ایک ریاستی مُہرا

کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

زہری بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہوتا ہے، جس پر ہمیشہ نواب، سردار، میر، وڈیرہ اور ٹکریوں کا راج رہا ہے پچھلے ایک دہائی سے اس سرزمیں کے آب و ہوا میں انقلاب کے مہک کا جو راز ہے یہ راز خضدار، قلات اور سوراب سمیت بلوچستان کے دیگر دیار میں بلوچ جان نثاروں کی جدوجہد سے جُڑ ہوا ہے، میر گھٹ اور کیل کی یادیں تازہ کرکے اس علاقے کے گلی گلی نگر نگر اور ہر ڈگر سے گذر کر اپنی تازگی بکھیر دیتا ہوا نظر آتا ہے. یہ سرزمیں بلوچ شاعر، ادیب اور قلم کار کے جدو جہد کے فہرست میں بلوچ سورماؤں کی مادر تشبیہہ پایا ہے.

اس دھرتی سے ابھی تک نااُمید ہونا خام خیالی اور تنگ ذہنی کے سوا کچھ نہیں، ہم نے اس سرزمین کے مٹی سے بنے آشیانوں میں امتیاز، حیو، مجید، دلجان، صدام، عرفان، عزیز اور کئی ایسے بہادر نڈر وطن کے سپوت جنم لیتے ہوئے دیکھے ہیں، جو ناممکن فلسفوں کو اپنی حکمت عملی سے چیلنج کرکے ممکن کے شکنجے میں اُتار کر اس دھرتی کا ہمیشہ کیلئے فلسفی بن کر موجودہ اور آنے والے نسلوں کیلئے ایک منجمد نظریئے اور فرسودہ سوچ کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر کے خود کوہ چلتن کی طرح تاریخ کے اوراق میں بُلند و بالا ہو گئیں، جو بلوچ تاریخ میں ہمیشہ سنہری الفاظ میں یاد کیئے جائیں گے.

ان شہیدوں کی مخلصانہ جدوجہد نے اس دھرتی کے گواڑخوں کی آبیاری کرکے اسے سیراب کر دیا ہے اور ایسے محنت کشوں کے انقلابی سبزہ زاروں میں اگر کوئی ویران اور کھنڈر فلسفوں پر بھروسہ کرنے والا مکار اور چالباز حامی اپنی فریب کاری کا سلسلہ باہر کے دیئے ہوئے قوتوں کے ذریعے شروع کر لے تو اُسے مادر دھرتی اپنی ایک آہ میں لپیٹ کر ایک پراگندہ سوچ کے ساتھ ہمیشہ کیلئے دفنا دیتا ہے۔
“اور بیشک یہی موت کا وہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا نے فنا ہونے کا نام دیا ہے.”

کیپٹن قدیر کے حادثاتی موت کے بعد جلیل زہری نامی ایک نوجوان نے قدیر کے خلاء کو ریاستی مارخور دستوں میں بھرنے کا عزم کرکے نومولود بچے کی طرح ارادوں کے گود میں دم توڑ دیا.

موسم بہار میں خزاں کو گھسیٹ کر لانا موت کا سودا ثابت ہوچکا ہے، شہیدوں کے آبیاری سے سیراب زمین کو جلاکر بھسم کرنے والے خود راکھ بن کر ایک خوفناک سبق ثابت ہوچکے ہیں. اسی طرح اپنی فریب سے بہار پر خزاں کو لانے والا فریبی خود خزاں کے پت جھڑ کی طرح بکھر کر خود ویران فلسفے کا حقیقت ثابت ہوا.

زہری پنجکان کا قدیر اور آڑچنو کھڈ میں جنم لینے والا جلیل اگر ریاستی مُہرا نہ ہوتے تو وہاں کے بھوکے، پیاسے اور غربت جیسے لعنتی کوٹھڑی میں قید وہاں کے باسیوں کو غلامی کے شِکنجے سے کب کا نکلنے کا موقع فراہم ہوتا اور وہ پُختہ عزم کرکے شہیدوں کے جستجو پر آمادہ ہوکر آزادی کے جہد پر ایمان لاتے اور غلامی جیسے غلاظت سے چھٹکارا پانے والے قافلوں میں شامل ہوجاتے.

عیش و عشرت کے خواب دیکھ کر مکمل راج کرنے کے ریاستی سرٹیفکٹ لےکر اور مظلوموں کے لہو کا سودا لگاکر بلوچستان کے کونے کونے میں بنا پلیٹ نمبر کے گاڑی میں سوار ہوکر ایم آئی کے کارڈ کے آڑے اور فوجی اسلحہ و ساز سامان کے غرور میں بدعنوانی اور کرپشن کے پیسوں سے نوجوانوں کو خریدنے اور اُنہیں لالچی دنیا کا سیر کرواکر ریاستی پروگراموں میں اُنہیں نچاکر، شراب، بیئر اور موج مستی کرکے شہر کے گلیوں میں بد مست جانور کی طرح بڑبڑا کر گھومنے والا جب مظلوموں کے ہاتھ لگتا ہے، تو وہ ماضی کی تلخ اور تاریک لمحوں کی وحشت کا عکس دیکھ کر جلیل جیسے ریاستی سہولت کاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُنہیں اُن کی انجام تک پہنچا دیتے ہیں.

آجکل جلیل کو بھی کیپٹن قدیر کی طرح ریاستی میڈیا اور سوشل نیٹورک پر ریاستی سہولت کار اسے سونے چاندی کے مد پر لوری سناتے ہوئے نظر آتے ہیں، ٹھیک اسی طرح کیپٹن قدیر کو سونے کے چمچے میں میں کھانا کھلاتے نظر آرہے تھے اور ریاست کے نوٹوں کے نشے میں ڈوبنے والے حضرات ایک لمحے کیلئے یہ نہیں سوچتے ہیں کہ صادق و جعفر کا انجام کیا ہوتا ہے اور اُن کے نسلوں کو کیا جھیلنا پڑتا ہے.

ایک وقت تھا بلوچ باغی بلوچستان میں دشمن کو نیست و نابود کرکے مخبر کو یہ پیغام بھیجتے کہ اب کرو مخبری کس کی مخبری کروگے لیکن جب دشمن سے زیادہ قوموں میں مخبر پیدا ہوجائیں تو پہلے مخبر کو راستے سے ہٹا دیا جائے اور پھر دشمن کےلئے راہ تنگ کئے جائیں.

جلیل جیسے لالچی اور خودبین و خودغرض نوجوان سرداروں اور نوابوں کے نائبی کے پھندے میں پھنستے ہوئے نظر آرہے ہیں جس کا آخری نتیجہ عبرت ناک موت کے سوا کچھ نہیں، زہری کے نوجوانوں کو خوآبِ غفلت سے جاگنا ہوگا ورنہ زہری جیسے مقدس دھرتی پر(جس نے نوروز، بھاول، جلال، دلجان،امتیاز اور حیو جیسے بیٹے جنم دیئے) کیپٹن قدیر اور جلیل جیسے آلہ کار بننے والوں کو کبھی برداشت نہیں کیا جائےگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔