کفن میں لپٹا بھائی کا لاش
سمیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سارہ عاروسی لباس پہنے شادی کے کمرے میں بیٹھی ہے. آج اسکی مہندی کی رسم ہے، ساری سہیلیاں اس کے آس پاس بیٹھیں ہیں اور آپس میں باتیں کررہی ہیں، کچھ عورتیں مہندی کی رسم پورا کررہے ہیں، ان میں سےبعض خواتیں بیاہ کے گیت خوش ترنم سے گا رہی ہیں.
لیکن سارہ اپنے خیالوں میں گم ہے،ایسالگتا ہے کہ وہ شادی کے کمرے میں نہیں بلکہ کسی اور دنیا میں ہے. اتنے میں سارہ کی چہیتی سہیلی حانی کی نظر اس پر پڑتی ہے، حانی اور اس کا بھائی کوہسار ایک ساتھ سکول میں پڑھتے تھے، حانی اور کوہسار ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے. لیکن حانی کے گھروالوں نے کوہسار کے سامنے ایک ہی شرط رکھا کہ وہ آکر سرینڈرکردے توحانی کی شادی اس کے ساتھ کریں گے. لیکن کوہسار نےسرزمین کی آزادی کے واسطے اپنے بچپن کےپیار کوقربان کیااورآج بھی آزادی کی جنگ لڑرہاہے. پھربھی وہ اپنے دل میں حانی سے بہت پیار کرتا ہے. جب بھی وہ گھر اپنے بہن سارہ کو فون کرتاہے، توحانی کےبارے میں پوچھتاہےکہ وہ کیسی ہے اور اسی طرح حانی روز کوہسار کےگھرآتی ہے، سارہ سے پوچھتی ہے کہ آپ کے بھائی نے فون کیا ہے کہ نہیں؟ اس کا کیا حال چال ہے؟ وہ کیساہے، ٹھیک ہیں کہ نہیں؟ روز سارہ اسے ستاتی ہےکہ نہیں اس نے فون نہیں کیا، “حانی میری جانی، میری اکلوتی سہیلی ایک دن اپنی اس سہیلی کے بارے میں پوچھو کہ میں کیسی ہوں۔” اوراسی طرح دونوں کی باتیں شروع ہوتی ہیں. دونوں بلوچستان کے موجودہ سیاسی صورت حال سے لےکردین ودنیا داری کی سب باتیں کرتی ہیں. کوہسار اور اس کےسرمچار دوستوں کے بارے میں بھی باتیں کرتے ہیں. اورایک دوسرے کے دکھ وسکھ کی باتیں بھی کرتے ہیں.
روزکی طرح اس روز بھی حانی اپنی پیاری سہیلی، سارہ سے ملنےآئی تھی کہ اس سے کوہسار کے بارے میں پوچھ سکے کہ اس نے فون کیا ہے کہ نہیں؟ وہ سارہ کےنزدیک آکر بیھٹتی ہے اور تھوڑی دیر پیارسے اسےدیکھتی ہے اور اس کا ہاتھ اپنی ہاتھ میں رکھ کر ان سے پوچھتی ہے کہ میری پیاری سہیلی آپ خیریت سے ہیں؟ یہ کیا حال بنا رکھا ہے آپ نے اپنا؟ اس طرح اداس ہوکر، اگر کوئی تکیلف کی بات ہے تو مجھے بتائیں. آپ کا من ہلکا ہوجائے گا. مجھ سے کیا چھپانا میں جو آپ کی اپنی سہیلی ہوں۔ کیا کوئی پریشانی کی بات ہے؟ کوہسار خیریت سے ہیں، اس نے فون کیا ہے کہ نہیں؟ حانی بھی گھبراتی ہوئی اپنی سہیلی سے پوچھتی ہے.
سارہ روتی ہوئی حانی کی طرف دیکھتی ہےاور ان سے کہتی ہےکہ ایسی کوئی بات نہیں وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ مجھے آج اپنے بھائی کی بہیت یاد آرہی ہے. اس لیئے میں رورہی ہوں، اور اسے ایک ماہ ہوا ہے کہ اس نےمجھے فون نہیں کیا ہے. میں اس لئے رورہی ہوں کہ آج میری مہندی کی رسم ہے اور میرے بھائی کو پتہ ہی نہیں ہے کہ میری شادی ہے اور میں نے تمہیں اس لیئے نہیں بتایا کہ آپ پریشان ہونگی اور مجھے اپنی پیاری سہیلی کی اداسی نہیں دیکھی جاسکتی۔
.
لیکن آج میری آنکھیں اپنے بھائی کو دیکھنے کے لئے ترس رہی ہیں، اور ان سے باتیں کرنا چاہتی ہیں، اور ان سے گلہ شکوہ کرنا چاہتی ہیں، کہ آپ کو چار سال ہوگئے ہیں. آپ گھر کیوں نہیں آئے ایسی کیا وجوہات ہیں؟ جو آپ کو ہم سے زیادہ عزیز ہیں؟ جو آپ ہم سے ملنے نہیں آتے ہیں. ماں کی آنکھیں آپ کی راہ تکتے تھک جاتی ہیں، اور آنکھوں سے آنسو نکل آتی ہیں. اب تو میری ماں کی آنکھیں ٹھیک طرح سے دیکھ نہیں سکتی ہیں. کیونکہ میری ماں اپنے بیٹے کی جدائی میں دن رات روتی رہتی ہے. اسی وجہ سے اس کی آنکھوں کی روشنی کمزور ہوگئی ہے. جب بھی کوئی فوجی آپریشن ہوتا ہے، تو وہ بہت پریشان ہوتی رہتی ہے اور ہاتھ اٹھا کر خدا سے کوہسار اور اس کے سرمچار دوستوں کی سلامتی کے لیئے دعا مانگتی ہے. حالات کی خرابی کی وجہ سے میرے بھائی کبھی گھر نہیں آتے ہیں.
دادا جی اپنےنواسے کے ایک دیدار کے لیئے ترستے رہے اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے. لیکن وہ نہ آیا، میں جب سولہ سال کی تھی تو میرا بھائی بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑنے کے لئے گیااور میں اب 20 سال کی ہوگئی ہوں. لیکن وہ ایک بار بھی ہم سے ملنے نہ آیا، میری چھوٹی بہن جانتی تک نہیں کہ اس کا ایک اور بڑا بھائی ہے. وہ ہمارے پیارے وطن بلوچستان کی آزادی کے لیئے ناپاک قبضہ گیر پاکستان کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہا ہے. شاید وہ ہم سے ملنے آئے بھی تو ہمیں نا پہچان پائے ہم جو اب اتنے بڑے ہوگئے ہیں.
آج میرے بھائی کے سارے کلاس فیلو کوئٹہ، اسلام آباداور لاہور و دیگر شہروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں. بعض نے ڈاکٹری اور انجنیئرنگ کا ٹیسٹ پاس کیا ہے، اور انجنیئرنگ اور ڈاکٹری پڑرہے ہیں.
ایک میرا بھائی ہے، جو اس نے تعلیم ادھورا چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کیا. کیسی آزادی کی جنگ وہ لڑرہےہیں؟ یہاں کے لوگوں کو تو کچھ پرواہ ہی نہیں ہے. کہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ چل رہی ہے. لوگ شہید ہورہے ہیں اور ان کے گھر تباہ وبرباد کر دیئے گئے ہیں. یہاں کے لوگوں کوتو بس اپنی جان کی پڑی ہوئی ہے. میرے بھائی ان لوگوں کی آزادی کےلیئے جدوجہد کررہا ہے. جو انہیں ایسی بددعائیں دیتی ہیں کہ کان سن کے برداشت نہیں کرسکتے ہیں. ان سب گاوں والوں کی آزادی کی جہد کے واسطے وہ ہم سب کو چھوڑ کے چلا گیا حانی؟ تمہیں بھی چھوڑ کے چلا گیا.
سارہ روتی ہوئی یہ ساری باتیں حانی سے کہتی رہی. حانی سارہ کو اپنے بانہوں میں لیتی ہے .اس کے آنکھوں کے آنسو صاف کرتے ہوئے،ان سے کہتی ہے میری پیاری سہیلی یہ جو آپ نے ساری باتیں کہیں ہیں. ایسا بلکل بھی نہیں ہے. سینکڑوں کی تعداد میں جوان، پیروکماش اور عورتیں اس سرزمین بلوچستان کی آزادی کے واسطے شہید ہوگئے ہیں. کوہسار اور اس کے دوست سینکڑوں کی تعداد میں اب بھی آزادی کی جہدوجہد کررہے ہیں. اس میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں. جو اپنے گلے سے طوقِ غلامی اتار پھینکنے کی کوشش کررہے ہیں. ہمارا سرزمین بلوچستان بہت بڑا ہے. ویسے آپ جو سوچ رہے ہیں، کہ ہمارے گاوں کے نوجوان کوہسار کے ساتھ آزادی کی جنگ میں شامل نہیں ہیں، اور کچھ بھگوڑوں کے سرینڈر کی وجہ سے جہد ختم ہوا ہے، ایسا بلکل بھی نہیں ہے. جنگ آزادی کی جہد ابھی جاری ہے. اس میں دوسرے علاقوں کے لوگ کوہسار کے ساتھ ہیں. یہ قومی آزادی کی جنگ ہے. ان ماؤں اور بہنوں کے سامنے ہماری جہد آزادی میں قربانی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے.
آپ کو پتہ ہے، مشکے میں بہن عابدہ کے شوہر ماسٹر رحمت اور اس کے دوبیٹے معراج اور فرہاد شہید ہوئے ہیں. گیبن میں ایک ہی ماں کے چار بیئٹے شہید اسلم، شہید حکیم، شہید رفیق اور شہید حیات مادر وطن کی آزادی کے واسطے شہید ہوگئے ہیں. بانک مہلب بلوچ کی والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو نوسال ہوگئے ہیں، وہ لاپتہ ہیں. کون جانے وہ زندہ ہیں یا ٹارچر سیلوں میں وفات پاگئے ہیں؟ ایسی بہت سارے مثالیں ہیں. آپ کا بھائی آزادی کی جنگ لڑرہا ہے وہ اپنے سرمچار دوستوں کے ساتھ ہے. کبھی کبھی آپ کو فون کرتاہے. آپ سے باتیں کرتا ہے. سب کی خیریت پوچھتا ہے. لیکن وہ فون تک بھی نہیں کرتے ہیں. مجھے کوہسار پر ناز ہے کہ اس نے سرزمین بلوچستان کی آزادی کے واسطے مجھے چھوڑا، میں کل بھی اس سے پیار کرتی تھی اور مرتے دم تک پیار کرتی رہوں گی۔
ابھی حانی کی باتین ختم ہی نہیں ہوئی تھیں کہ سارہ کی موبائل پر ایس ایم ایس آیا کہ “ہوشاب اور کولواہ کے درمیان پاکستانی آرمی کے ساتھ دوبدو جھڑپ میں دوسرمچار شہید ہوئے ہیں. ان میں سے ایک کی شناخت کوہسار کے نام سے ہوا ہے، اور ان کی لاشین ہوشاپ پولیس تھانے میں رکھے ہوئے ہیں۔”
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔