پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں رہائش پذیر اقلیتی سکھ برادری کے ایک خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی 15 سالہ ذہنی معذور بچی کو ریسکیو سروس کے دو اہلکاروں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔
ننکانہ صاحب سٹی پولیس کے مطابق بچی کے خاندان والوں کی شکایت پر ریسکیو سروس 1122 کے دو اہلکاروں کے خلاف زنا کا مقدمہ درج کرنے کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ننکانہ صاحب سٹی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مجاہد رضا کا کہنا تھا کہ’اس بات کا فیصلہ میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد کیا جائے گا کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے یا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ابتدائی طبی معائنے کے بعد بچی کو فرانزک ٹیسٹ کے لیے لاہور کی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھجوایا گیا تھا۔
مجاہد رضا نے بتایا کہ ڈاکٹر اس بات کا تعین فرانزک ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد کریں گے کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یا نہیں۔
’اس عمل میں 15 سے 20 دن لگ سکتے ہیں۔ تب تک ملزمان پولیس کے تحویل میں رہیں گے۔‘
سکھ برادری کے افراد کے مطابق بچی کا خاندان چند برس قبل خیبر پختونخواہ سے ہجرت کر کے ننکانہ صاحب آیا تھا۔
پولیس کے مطابق بچی کے جسمانی خدوخال 15 سال کی لڑکی کے ہیں تاہم اس کی ذہنی پختگی دو ماہ کے بچے جیسی ہے۔ڈی ایس پی مجاہد رضا کا کہنا تھا کہ بچی کے خاندان والوں کے مطابق وہ جمعے کی رات وہ اپنے گھر سے باہر نکل گئی۔
معلوم پڑنے پر اس کے خاندان والوں نے اس کی تلاش شروع کی تو اسے ننکانہ شہر کے مضافات میں سڑک کنارے کھڑی ریسکیو 1122 کی ایک ایمبولینس میں پایا گیا۔
ننکانہ صاحب میں سکھ برادری کے جانب سے اس واقعے کے حوالے سے قائم کی جانے والی کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ بچی کو تلاش کرنے والوں نے ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کو دروازہ کھولنے کا کہا تو انہوں نے گاڑی بھگا دی۔
’ننکانہ شہر سے تقریباً تین کلو میٹر دور انہوں نے بچی کو گاڑی سے پھینک دیا اور فرار ہو گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بچی جس حالت میں پائی گئی اس کے جسم پر صرف ایک قمیض تھی۔ بچی ذہنی معذور ہونے کی وجہ سے بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی لہذا کسی قسم کا بیان دینے سے قاصر تھی۔
ڈی ایس پی مجاہد رضا کا کہنا تھا کہ بعد میں سکھ برادری کی شکایت پر بچی کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کے بعد دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملزمان نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا کہ بچی گاڑی سے ٹکرائی تھی جس کے بعد انہوں نے طبی امداد کی غرض سے اسے ایمبولینس میں ڈالا۔
تاہم پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ جو سوال جواب طلب ہیں وہ یہ ہیں کہ بچی گاڑی سے کیسے اور کب ٹکرائی، اس کو کیا چوٹیں آئیں اور اگر اسے ایمبولینس میں ڈالا گیا تو ہسپتال منتقل کیوں نہیں کیا گیا؟
’اس حوالے سے مزید حقائق میڈیکل رپورٹ کے سامنے آنے اور مزید تفتیش کے بعد جانے جا سکیں گے۔‘
دوسری جانب ریسکیو 1122 کے ترجمان فاروق احمد نے بتایا کہ اس حوالے سے شکایت موصول ہونے کے ساتھ ہی دونوں اہلکاروں کے خلاف محکمانہ انکوائری کی گئی جس کے بعد انہیں فوری طور پر معطل کر دیا گیا۔
’معاملے کی شفاف طریقے سے تفتیش ممکن بنانے کے لیے دونوں اہلکاروں کو ریسکیو سروس نے بذاتِ خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کیا۔‘
فاروق احمد کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ کسی بھی حوالے سے اس واقع کی آزادانہ تفتیش پر اثر انداز ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
فاروق احمد کا کہنا تھا کہ ریسکیو 1122 کی سروس کو قائم ہوئے 14 برس بیت چکے ہیں اور اس دوران سامنے آنے والی اپنی نوعیت کی یہ پہلی شکایت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اہلکار روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں ایسے مریضوں کو طبی امداد فراہم کرتے ہیں جو ہوش میں بھی نہیں ہوتے۔