پانی اوپر سے گدلا ہے – برزکوہی

691

پانی اوپر سے گندلا ہے

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

جو دکھتا یا جو دکھایا جاتا ہے، وہ اصل حقیقت نہیں ہوتی۔ وہ سبب ہیں اور جوسبب ہیں وہ بھی حقیقت نہیں پھر کیوں؟ کیوں ہر سبب میں مختلف اسباب ہیں اور مختلف اسباب میں کچھ سبب ہیں؟ پھر وہ سبب کیا ہے؟ یہاں سے فلسفیانہ غور و فکر شروع ہوکر روایتی اور عموعی طرز غور و فکر کو مات دیتا ہے، پھر انسان میں تشکیک اور جستجو کی کیفیت پیدا ہوتا ہے۔ انسان پھر عدم اطمینان کا اس وقت تک شکار ہوتا ہے، جب تک انسان استقرائی منطق پر نہیں پہنچتا۔ اس وقت تک مطمین نہیں ہوتا ہے بشرطیکہ انسان میں فلسفیانہ غور و فکر اور جستجو کی لگن اور عادت نہیں ہو۔ تو بس ہر دیکھنے والا سننے والا نظریہ، خیال، روایات، عقائد، آراء، خبر، پیغام، واقعہ اور حرکت لامحالہ حقیقت اور سچائی ہوتا ہے اور انسان اس کا تقلید کار ہوتا ہے۔ جس طرح یہ مشہور قصہ یہاں پر منطبق ہوتا ہے۔

ایک کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا، تو ہمسائے نے انکار کرتے ہوئے کہا؛ رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاؤں، جا کر عمل کرو تو رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہمسائے نے کہا؛ اپنے گدھے کے پاس جا کر بالکل ایسی حرکتیں کرو جیسے رسی کو گردن میں ڈال کر کستے ہیں اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا بغیر کوئی حرکت کیئے ویسے ہی کھونٹے کے پاس کھڑا رہے گا۔ کسان نے گدھے کے پاس جا کر ہمسائے کی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔ دوسری صبح باہر جا کر دیکھا تو گدھا ویسے کا ویسا کھونٹے کے پاس بیٹھا ہے۔

کسان نے گدھے کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی افتاد آن پڑی کہ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نا ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام نا بنا تو ہمسائے سے جا کر کہا؛ بھئی تیری نصیحت باندھ دینے تک تو ٹھیک تھی مگر اب میرا گدھا کام تو جاتا رہا ہے، اب کیا کروں؟ ہمسائے نے پوچھا؛ آج کام پر جانے سے پہلے کیا تو نے پہلے اس کی گردن سے رسی کھولی تھی؟ کسان نے حیرت سے کہا: کونسی رسی؟ میں نے تو بس رسی باندھنے کی اداکاری کی تھی، اصل رسی تھوڑی باندھی تھی؟ ہمسائے نے کہا؛ ہاں تیرے نقطہ نظر سے تو رسی نہیں ہے، مگر گدھے کے حساب سے تو رسی بندھی ہوئی ہے ناں! کسان نے واپس جا کر گدھے کی گردن سے اور بعد میں کھونٹے سے رسی کھولنے کی اداکاری کی، اس بار گدھا بغیر کسی مزاحمت کے مالک کا کہنا مانتے ہوئے کام پر چلا گیا۔

انسانی اذہان کی بھی سطوحات ہوتے ہیں، کچھ وقت سے پہلے حالات، واقعات، علامات، تاثرات، نشانات اور ہواوں کے رخ و سمت کے علم و شعور، عقل و ادراک سے سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی چھٹی حس یعنی خالص سچائی توجہ اور دلچسپی کا عنصر کار فرما ہوتا ہے۔ جسے ہم شعوری کہیں بھی صیح ہوگا، غلط نہیں دوسرا وہ ذہن جو وقت دھچکا، جھٹکا اور حقیقت سے ٹکر کھا کر سمجھ سکتا ہے۔ یہ بھی شعور مگر شعور کی انتہائی ضعیف العمر شکل ہوتا ہے۔ تیسرا سب کچھ سے گذر کر بھی نہیں سمجھتا ہے۔ اس میں بھی صرف لاشعوری کم عقلی اور لاعلمی نہیں ہوتا بلکہ رضاو رغبت ہوتا ہے، تو رضا و رغبت میں بھی کہیں اسباب ہوتے ہیں مثلا مصلحت پسندی خودغرضی لالچ خوف رواداری آرام و سکون رافراریت، مراعات، مجبوری، لاچاری، تکلیف، مصبیت اور مشکلات سے گھبراہٹ وغیرہ ہوتا ہے۔ پھر ایسے انسان اپنے آپ کو ساتھ ساتھ دوسرے کو بھی دھوکا اور فریب کی جالوں میں اس لیئے پھنسا دیتا ہے تاکہ میرے ساتھ دوسرے بھی ایسے ہی ظاہر ہوں کیونکہ اکثریت میں ہی عیب دار شکل نمو ہوں، پھر ایک کے عیب اکثریت کی عیوب میں عیب ظاہر نہیں ہوگا۔ سارے کے سارے ایک جیسے، ویسے کے ویسے ہونگے۔

بالکل افسوس کا مقام ہے، تکلیف دہ مقام ہے، نقصان ہے اچھا نہیں ہوا، رونا چاہیئے، ماتم کرنا چاہیئے، خوش نہیں ہونا چاہیئے، خفا ہونا چاہیئے، گلاپھاڑ پھاڑ کر چیخنا چاہیئے، توبہ استغفار کرنا چاہیئے وغیرہ وغیرہ تحریکوں میں ایسا ہوتا ہے یہ تحریک کے حصہ ہیں ہر ایک اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، کون ذمہ دار ہے؟ اصل وجوہات کیا، کیوں ایسا ہوا؟ ایسا نہیں ہونا چاہیئے یہ تحریک ہے یہ کسی کے خاطر نہیں رکے گا، چلتا رہیگا جنگ جاری و ساری ہوگا وغیرہ وغیرہ بلکل ٹھیک ہے ان باتوں سے انکار نہیں میں مطمین تو مطمین قصہ ختم اور؟

کیوں اپنے بیچارے دل و دماغ، ضمیر، کانوں اور آنکھوں کو اس طرح خدا کے عذاب میں ڈال کر اذیت دے دیکر فریب اور دھوکا دے رہے ہیں، ایسی من گھڑت، بے بنیاد، غیرمنطقی، بچگانہ، جذباتی، روایتی اور سطحی باتوں میں؟

ہم نے بارہا کہا اور کہتے آرہے ہیں کہ مخصوص ایجنڈے پر ایک بار نہیں بار بار عمل پیرا ہوا جارہا ہے، یہ ایک تسلسل ہے، کہیں برسوں سے شروع ہے، ہم نے یہ بھی کہا وقت ثابت خود کریگا، کون کہاں پر ہوگا؟ پھر کیا وقت ابھی تک نہیں آیا ہے؟ یا گھڑی کی سوئی غلطی پر ہے یا ایک ہی جگہ گھڑی کی سوئی اٹک کر بند ہوچکا ہے؟

مخصوص ایجنڈہ مسلح جہدوجہد کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناکام کوشش، وہ بھی اپنے سر ذمہ داری نہیں لینا، دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر خود کو مکمل پارسا اور پاکیزہ ثابت کرنا، دوسروں کو انتہائی سوچ و سمجھ کر درجہ بہ درجہ شاطرانہ انداز میں جال میں پھنسا کر مجبور کرنا، زور اور ذبردستی دھکیل دینا تاکہ بدنامی رسوائی کا ڈھیر دوسروں کے سرپر پڑے۔ رسوااور بدنام بھی دوسرے ہوں، قوم کے سامنے اور تاریخ میں بھی دھبہ دوسروں کے پیشانی پر چسپاں ہو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے۔ پھر جی میں نے تو کچھ نہیں کیا! مجھے کچھ معلوم نہیں تھا! بس سب چلے گئے، میں بھی ابھی کچھ نہیں کرونگا، میں کیا کرسکتا ہوں۔ بس ختم ابھی کچھ نہیں ہوگا، نہ سیخ جلے نہ کباب جلے والا فارمولا انتہائی مہارت اور ٹیکنکل انداز میں روبہ عمل جاری و ساری ہے۔ اور اس مخصوص ایجنڈے میں کئی اور کردار شانہ بشانہ ہیں۔ جن کے اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے ہیں پھر سب ایجنڈے مل ملا کر بڑے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔

بلوچ قبائلی و آپسی جنگوں اور رنجشوں میں جب دونوں فریقین کے درمیان تھکاوٹ کی کیفیت رونما ہوتی ہے تو قبائلی زعماء آپسی صلاح، رضامندی اور راہ فراریت کے لیئے جواز اور بہانے کی تلاش میں نچلے سطح پر ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں تاکہ نچلی سطح کے لوگ مایوسی، بدظنی اور راہ فراریت کا شکل اختیار کریں اور آپسی جنگ کو ختم کرنے کا صحیح موقع ہاتھ میں آئے اور الزام نچلے سطح کے لوگوں پر آئے کہ نچلے سطح کے لوگ تھکاوٹ، خوف اور بزدلی کا شکار ہوگئے، ہم نے مجبوراً جنگ ختم کردیا، ویسے ہم ہرگز ایسا نہیں کرتے۔

یہ ایک شاطرانہ قبائلی مائنڈ سیٹ ہے، جو بلوچ آپسی قبائلی جنگوں میں استعمال کرچکے ہیں، بے شمار ایسے ثبوت اور مثالیں موجود ہیں۔ آج یہ مائنڈ سیٹ من وعن قومی تحریک میں بھی عمل پیرا ہے، تو آگے دیکھتے ہیں آنے والی چند وقتوں میں کیا کیا نہیں ہوگا۔

مخلص، نظریاتی، محنتی اور قربانی کے جذبے سے سرشار دوستوں کو انتہائی محتاط ہونا چاہیئے، ان کے مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا اور نقصانات کا بے تحاشہ اندیشہ ہے۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تجھے بھی لے ڈوبینگے کے مصداق کام جاری رہیگا۔

آنے والے چیلنجز اور مشکلات کے لیئے تمام فکری دوستوں کو ذہنی حوالے سے مکمل تیار ہوکر، اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، ہر قدم ہوش و حواس اور شعوری بنیاد پر اٹھانا ہوگا۔ تب جاکر لہو اور پسینے سے پرورش پانے اور بالغ ہونے والی اس قومی جنگ کو کوئی روک نہیں سکتا اور ختم نہیں کرسکتا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔