وطن کا دیوانہ شہید کامریڈ مجید عاجز – میرین بلوچ

642

وطن کا دیوانہ، شہید کامریڈ مجید عاجز

تحریر: میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم دنیا کی تحاریک میں دیکھیں تو ہمیں بہت سے دیوانے ملتے ہیں.اپنا گھر، اپنی ساری خوشیوں اور اپنا زندگی سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، صرف اور صرف اپنی قوم کی بقاء و سلامتی اور آزادی کی خاطر اپنی جان کو قربان کر دیتے ہیں، آج کی تحریکوں میں دیکھیں تو نوجوان,بوڑھے, عورت جو کئی کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، جو ساری حدیں پار کر رہے ہیں، آج کی انقلابی نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے”ٹالسٹائی”یاد آتا ہے۔ ساری زندگی اپنے لیئے گزار کر خوشی نہیں ملتی خوشی ملتی ہے تو اُس وقت جب دوسروں کیلئے جینا شروع کرو گے. جی ہاں زندگی وہ ہے جو دوسروں کیلئے جینا شروع کرو اپنے لیے نہیں۔

آج میں ایک ایسے دوست کی داستان لکھ رہا ہوں، جتنا بھی لکھوں اتنے ہی کم الفاظ ہیں، وہ جو جسمانی حوالے ہمارے سامنے نہیں لیکن اُنکی سوچ, فکر وفلسفہ آج بھی زندہ ہے، جتنی تعریف کروں اتنا ہی کم! شھید مجید عاجز 08جنوری 1998ء کو واجہ رضائی کے گھر میں آواران کے علاقے کولواہ کنیچی میں پیدا ہوئے اور مجید کے پیدا ہونے کے بعد واجہ رضائی تربت(کیچ) کے علاقے آبسر کولوائی بازار میں منتقل ہوئے اور مجید عاجز نے ابتدائی تعلیم مڈل اسکول کہدہ یوسف محلہ آبسر کیچ میں حاصل کیا اور نویں, دسویں جماعت ہائی اسکول آبسر کیچ میں حاصل کیا۔

مجید سے میری دوستی نوئم جماعت سے ہوئی وہ ہنستا, مسکراتا ساتھی تھا اور مجید عاجز جان ایک شاعر بھی تھا، جو بلوچی میں لکھتا تھا اور اُس کا لقب عاجز کے نام سے جانا جاتا تھا اور عاجز جان نے اپنی قوم کی تنگ دستی, درتگ پوچی, بے بسی کو برداشت کر نہ سکا اور وہ BNM بلوچ نیشنل مومنٹ میں شمولیت اختیار کرلیا۔ مجید کا نیا نام عاجز میں بدل گیا۔
.
عاجز جان اب میرے دو طرفانہ دوست ہو گئے یعنی ایک تو میرے اسکول کا دوست اور ایک بلوچ نیشنل مومنٹ کا سنگت یعنی اب ہم خوب ایک دوسرے کو جاننے لگے، عاجز جان اپنے وطن کا دیوانہ تھا، وہ ایک مزاقیہ دوست تھا، کبھی کبھی دوستوں نے عاجز کا مزاق اڑاتے تھے، کیا بتاؤں وہ ایک عجیب پاگل ساتھی تھا، وہ پاگل جو اپنی سرزمین کا پاگل تھا یعنی سرزمین کا عاشق دیوانہ تھا، میٹرک کے امتحان کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے عطاشاد ڈگری کالج کیچ میں F A میں ایڈمیشن لیا لیکن کچھ عرصے کے بعد انہوں نے تعلیم کو چھوڑ دی کیونکہ غریبی اور بے روزگاری کی سبب انہوں نے اپنے بھائی اور بزرگ باپ کے ہاتھ بٹانے کیلئے ایک درزی کے دوکان میں کام کرنے لگا اور اُس وقت عاجز اپنے پارٹی کی سرگرمیوں میں بہت مصروف تھا اور وہ اپنی ذاتی کاموں کو چھوڑ کر زیادہ تر پارٹی کے کاموں کو ترجیح دیتا تھا-

رات ہو یا دن ہو، پارٹی کے کاموں میں سب سے پہلے ساتھی عاجز جان ہی تھا۔ وہ ایک ایماندار اور مخلص ساتھی تھا، دشمن کو برداشت نہ ہو سکا اور فروری 2017 کے دن کو ریاستی فوج نے آپکے دکان کو گھیرے میں لیا، جب آپ وہاں موجود نہیں تھے جس میں سیٹھ رھیم بخش کو حراست میں لیا گیا اور بعد میں آپکے گھر کو گھیرے میں لیا گیا، آپ وہاں بھی موجود نہیں تھے۔ آپ شہید تلار جان کے پاس تھے۔ دشمن اپنی شکست کو برداشت نہ کر سکا، انہوں نے آپکے بڑے بھائی واحد بلوچ کو حراست میں لیا، جس میں آپکی ماں نے اپنے لخت جگر بیٹے واحد کو بچانے کیلئے ریاستی فوج کے سامنے روکنے کی کوشش کی لیکن ریاستی فوج کو کیا پتہ کہ ایک ماں کے دل پر کیا کیا گزرتا ہے.

جب میں بازار سے واپس آیا تو شھید تلار جان کے پاس آگیا، میں نے آپکو وہاں دیکھا، عجیب خاموشی تھی، تو میں نے کہا خیریت ہے تو تلار جان نے سب کچھ بتایا جب میں نے آپکے چہرے کی طرف دیکھا تو مجھے یوں، محسوس ہوا نہ تو آپکے چہرے پر پریشانی ہے اور نہ آپکے چہرے پر مایوسی, بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں آپ کو دیکھتے دیکھتے مجھے “جیولس فوچک “یاد آیا, جس طرح آگ لوہے کو مظبوط بنا دیتا ہے, اسی طرح سخت حالات بھی حقیقی انقلابی کو فولاد بنا دیتے ہیں۔

آج میرے سامنے ایک کمزور عاجز جان نہیں بلکہ ایک انقلابی فولاد جو لوہے کی طرح مضبوط, کوئی بھی اُسے مٹا نہیں سکتا! پارٹی کی طرف سے آپکو کچھ وقت کولواہ رہنے کیلئے کہا گیا، آپ نے پارٹی کی بات تسلیم کرکے کولواہ روانہ ہو گئے اور وہاں آپ پارٹی کے کاموں میں مصروف ہوئے، آپکا آبائی علاقہ کنیچی، جہاں آپ وہاں پیدا ہوئے کچھ عرصے کے بعد کولواہ میں ایک دوست کے پاس آگیا تو وہاں میں نے آپکو sms کیا اور آپکا حال پوچھا اور آپ نے کہا میں ایک دم برابر ہوں اور آپ کہاں ہو, اور میں نے کہا آپ کے نزدیک! کب آو گے، آپکی یاد بہت آتی ہے اور عاجز جان نے کہا کہ دو دن کے بعد آجاؤں گا-

اگلے ہی روز 29 جولائی2017 کو ریاستی فوج نے آواروان کے علاقے کولواہ کنیچی میں آپریشن کے دوران مجید بلوچ اور سادق بلوچ اور دو دولہے بھائیوں جو BSO A کے زونل انفارمیشن سیکرٹری شاکر شاد اورھاسل بلوچ تھے، ریاستی فوج نے ایک ساتھ چاروں نوجوانوں کو شھید کیا۔ چاروں نوجوانوں ایک ہی عمر و قد کے تھے۔ جو تحریک میں دائمی نمیران(زندہ) ہو گئے۔

جب آپکے شہادت کا حال ملا تو میرے لیے یہ خبر ایک درد ناک خبر تھا، پر میں نے یہ سوچا کہ آزادی کا درخت عموماً شھیدوں کی لہو سے ہی سیراب ہوتی ہے اور اسی درخت کے سائے تلے اسی قوم کے فرزند بیٹھتے ہیں اور ایک نئی سورج کا آغاز ہوگا جس طرح “چیسٹر آھم کہتا ہے” “ Chester Hime ” Martyrs are needed to create incidents. incidents are needed to create revolutions. Revolutions are needed to create progress
آپکی بہادری اور ہمت دلی کو خراجء حقیدت اور سرخ سلام پیش کرتا ہوں۔۔۔۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔