پاکستان کی سپریم کورٹ نے سزائے موت کی منتظر مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہینِ مذہب کے الزام سے بری کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی اپیل پر محفوظ فیصلہ بدھ کی صبح سنایا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس میاں مظہر عالم خیل بھی بینچ کا حصہ تھے۔
بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ماتحت عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا کے خلاف دائر آسیہ بی بی کی اپیل منظور کرلی گئی ہے اور اگر وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں تو انہیں فوری رہا کردیا جائے۔
آسیہ بی بی کو نومبر 2010ء میں پنجاب کی ایک مقامی عدالت نے توہینِ مذہب کا الزام ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی تھی جسے بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
آسیہ بی بی نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اکتوبر 2014ء میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر عدالتِ عظمیٰ نے آٹھ اکتوبر کو مختصر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ وہ جون 2009ء میں صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں واقع اپنے گاؤں کی خواتین کے ساتھ بحث و تکرار کے دوران پیغمبرِ اسلام اور اسلام کی توہین کی مرتکب ہوئی تھیں۔
آسیہ اس الزام سے انکاری رہی ہیں۔ وہ اپنے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سے جیل ہی میں قید ہیں۔
تحریکِ لبیک پاکستان سمیت کئی مذہبی جماعتوں نے عدالت کی جانب سے آسیہ بی بی کو رہا کرنے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دے رکھی ہے۔