مجید پھر آئے گا
تحریر۔ آئشمان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
منزل، مقصد، جدوجہد یہ چیزیں ہر عام و خاص ذہنوں کے مالکوں کے پاس نہیں ہوتے، ان الفاظ کے پس منظر کا جو فلسفہ ہے اسے سمجھنے کے لئے اور اپنانے کے لیئے دماغ میں موجود شعور اور علم کا ہونا لازمی ہے اور جو انسان اپنی خواہشات اور سوچ پر کنٹرول رکھتا ہے، وہی اصل زندگی جیتا ہے، نہیں تو صدیوں سے چلی آ رہی ہے، اس دنیا میں روایتی طرزِ زندگی بسر کرکے پھر ایک دن مرکے ختم ہونے کا رواج رہا ہے۔
جدو جہد کسی مقصد کےلیئے اس شعوری بنیاد پر کی جائے تو وہ جدو جہد انسان کو اسکے مقصد سے ملا کر اسے اسکی منزل پر پہنچاتا ہے اور یوں ہی وہ اس مقصد میں کامیاب ہوتا ہے اور اپنے وجود کی موجودگی کا قرض اتار دیتا ہے کہ وہ روایتی طرز جی کر مرا نہیں کچھ کرکے امر ہوگیا، یاد رکھا جائے گا اسے، اسکی نسلوں تک، رہتی دنیا تک، تاریخ کے پنوں میں، وطن زادوں کی جھرمٹ میں، وفا کے گیتوں میں، عشق و محبت کی داستانوں میں۔
ایسی جہد بلوچ معاشرے میں پنپ رہی ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے، اس جدو جہد کے پیچھے قومی مقصد اور آزادی کی منزل ہے، جس کے لیئے ہر نسل نے ہر دور میں جدو جہد کی اور آج قوم انہیں انکی جہد پر سلام پیش کرتی ہے اور ہر آنے والی نسل تک انہیں یاد رکھی جائیگی۔
کئی جنگیں لڑنے والی قوم بلوچ ہر دؤر میں باہر کے دشمن کے زیر قبضہ رہا لیکن بلوچ قوم کبھی اپنے جدو جہد سے پیچھے ہٹنے کو ترجیح نہیں دی بلکہ ہر دؤر میں قبضہ گیر طاقت کو چیلنج کرکے میدان جنگ میں اتر گیا اور فتح تک لڑنے کی ٹھان لی۔
ایکیسویں صدی میں پہنچ کر بلوچ قوم اپنی آزادی کی پانچویں جنگ لڑ رہی ہے، لیکن اس بار اسی شدت اور جذبے سے کہ پھر کوئی مادرِ بلوچ کو قبضہ کرنے کا سوچ اور خیالوں سے بھی خوف کھائے، اس جنگ کو لیکر پہاڑوں سے شہر گلی کوچوں میں پہنچا کر وطن کے رکھوالے جانثار کرتے اپنے دشمن کو ابدی شکست دینے کے لئے بالکل تیار ہیں۔
ایسے ہی جہد کاروں میں ایک بہادر، ہوشیار، باشعور نواجون سے میری ملاقات ہوئی۔ عمر میں چھوٹا پر صلاحیتوں میں پہاڑ۔ شاطر دماغ، اپنے لڑکپن میں کئی گنا بڑے دشمن کو شکست دینے کے لئے تیار اور حکمت عملی بنانے میں ماہر نواجون اپنے اگلی کاروائی کی تیاریوں مصروف عمل ملا۔
مجید عمر میں چھوٹا پر ہمت اور حوصلوں میں بہت بڑا تھا، اس نے جس دؤر میں دشمن کو شکست دینے کی ٹھان لی تھی اسی دؤر میں دشمن بدمست اور لہو کے نشے میں ہر گلی کوچے میں لاشوں کے ڈھیر لگا رہا تھا، پر مجید کی سوچ اسکے بہادری سے ظاہر ہوتا تھا کہ مجید پیچھے ہٹنے کے بجائے دشمن کے بیچ گھس کر اسے اسکی ناکامی دکھانا چاہتا تھا۔
خضدار کے گلیوں میں جب کبھی کسی ہجوم کو دیکھتا تو مجید انکی رہنمائی کرتا ہوا ملتا، مجید آگے بڑھ کر خضدار کے سوئے ہوئے عوام کو اپنے نعروں اور ہر گھر کے اوپر آزادی کے سلوگن کو نقش کرکے بتانا چاہ رہا تھا اب کی بار جو اٹھیں ہیں تو منزل کو پہنچ کر ہی دم لینگے۔
پھر وہ دن بھی آن پہنچا، جب مجید کو اسکے والد کے دفتر سے ریاستی اہلکاروں نے غائب کرکے ہفتہ بھر ٹارچر کرتے رہے اور اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہا پر مجید تو مجید تھا، مجید مجیدوں سے گزر کر مجید بنا تھا، مجید بابو نوروز کے مورچوں کے دامن میں پلا بڑا تھا، اسے شکست دینا دشمن کے لئے ناممکن تھا اور ناکامی کی صورت میں مجید کو لاکر خضدار کے سڑک پر گولیوں سے چھلنی کردیا۔
دشمن نے یہ سوچ کر مجید کو رابعہ خضداری روڈ پر گولی مار کر شہید کردیا ہوگا کہ شاید مجید کے دوست ڈریں اور خوف کھائیں لیکن پھر کیا تھا کہ مجید کے لہو سے پھوٹنے والے شعلوں نے اس دشمن کو اپنے لاشوں کے چیتھڑے ڈھونے کا محتاج کردیا.
مجید وطن کی آغوش میں آسودہ خاک ہو کر وطن دوستی کا مہر و وفا کا پیکر بنا، مجید کو اپنی جان کی پروا نہیں کیونکہ وہ ایک فلسفے کا پیروکار ہے. وہ وطن سے دوستی نبھانے کا ہنر جانتا ہے. وہ وطن کے دشمن کو اس کے عزائم کو سمجھ سکتا ہے. یہی سوچ و شعور اسے سوچنے پر مجبور کرتا ہے. یہی شعور اسے ہر کام کر گذرنے کے لیے تیار کرتا ہے. یہی وہ مقام ہے جہاں انسان شکست کی بجائے موت کو گلے لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔