طلبا تنظیم کے رہنما شبیر بلوچ آج تک لاپتہ ہے – محسن بلوچ

242

طلبا تنظیم کے رہنما شبیر بلوچ آج تک لاپتہ ہے

محسن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان کی حالات پر ہر وقت کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو موضوع کا انبا ر لگ جاتا ہے تو سوچ میں گم ہو جاتا ہوں کہ کیا لکھوں، تو شش و پنچ میں رہتا ہوں، روز کہیں نہ کہیں سے کوئی پاکستانی فو ج کے ہاتھو ں اغواء ہو جاتا ہے روز قصے بھی نئے ہوتے ہیں اُن میں سے ایک شبیر بلو چ ہے، جس کے اغواء کو 4 اکتوبرکو دوسا ل مکمل ہو جائیں گے، اس دوران وہ پاکستانی ٹارچر سیلوں میں باقی بلوچوں کی طرح اذیت سہہ رہے ہیں، شبیر بلوچ ایک ہو نہار طالب علم ہے، شبیر جان کے بارے میں لکھنے کیلئے میرے پاس اتنے الفاظ نہیں۔ ریاست کے ظلم و ستم کو طشت ازبام کروں، میں لکھاری نہیں ہوں کہ روز جبر کے داستان بیاں کروں لیکن مجبور ہوں مادر وطن پر نا رکنے والی ظلم کو بیاں کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بہت کوششوں کے بعدآج میں کچھ لکھنے کیلئے خود کو راضی کر پایا، مگر پھر اسی سوچ میں ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں جس انسان کے بارے میں لکھ رہا ہوں اسکے ساتھ نا انصافی تو نہ ہو اور میں شرمندہ ہوجاؤں۔

بی ایس او آزاد ایک طلبہ تنظیم ہے، جسکے رہنماؤں سے لیکر کارکنوں کی قربانیوں کا طویل قصہ مو جود ہے، جو نوجوانوں میں شعور پیدا کرنے کی پاداش میں دشمن کے ہاتھو ں لقمہِ اجل بن چکے ہیں۔ سمجھنے کیلئے کچھ ناموں کا ذکر کرتا ہوں تاکہ سمجھنے کیلئے آسان ہو، جس میں رضاجہانگیر، الیاس نظر، قمبرچاکر، کمار جان، حاصل بلوچ، کمال بلوچ، اکرام اور بہت سے رہنما گذشتہ چند سالوں میں ریاست مظالم کے زد میں آکر شہید ہوئے ہیں اور بہت سے ورکرز سے لیکر رہنماؤں کو پاکستانی فورسسز نے اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے ہیں جن میں سابقہ چیئرمین زاھد جان، وائس چیئر مین ذاکر جان، مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ ، انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ، حسام بلوچ ، نصیر بلوچ سمیت سینکڑوں کارکنوں کو پاکستانی فورسسز نے اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے ہیں جو تاحال زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیںـ

یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن آج میں صرف شبیر جان کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کررہاہوں تاکہ دنیا کے ہر کونے میں یہ پیغام پہنچا سکوں کہ بلوچستان پر ریاست پاکستان نے غیر انسانی عمل کے تما م حدود پار کر چکا ہے۔

شبیر جان کا تعلق آواران لباچ سے ہے، آواران کو بلوچ تحریک آزادی کا مرکز کہا جاتا ہے’’ اس وقت ہزاروں کے حساب سے پاکستانی فوجی کارندے اس چھوٹے سے علاقے میں موجود ہیں۔ شاید سوشل میڈیا کی مدد سے آپ لوگ دیکھ رہے ہیں، آواران میں فوج کی مظالم انتہا کو ہیں‘‘ شبیر بلوچ کا تعلق پر امن جمہوری تنظیم بی ایس او آزد سے ہے، شبیر بلوچ کو جس وقت اغوا کیا گیا تھا، اُس وقت وہ بی ایس او آزاد کا انفارمیشن سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

بی ایس او کو پاکستانی فوج نے 2013کو کالعدم قرار دیا تھا، اُس پر ہر طرح کے پابندی لگایا گیا۔ لیکن بی ایس او کے کارکنوں نے شعوری کاروان کو روکنے نہیں دیا، بلکہ جدوجہد میں مصروفِ عمل رہے اور یہ جدوجہد تاحال جاری ہے۔ نوجوان طبقے کی ذہنی تربیت، شعوری آبیاری، جدیدسائنسی طرزِعلم سے لیس کرنے کی تگ دو میں ہے۔

بی ایس او کے خواب میں ایک پُرامن آزاد خودمختار وطن ہے، بلوچستان کو آزاد کرواکے ہر چیز کا فیصلہ بلوچ قوم کے ہاتھ میں دینا ہے۔ اسی خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بلوچ نوجوان طبقہ جدوجہد کررہے ہیں، ریاست نے بی ایس او کو اسی پاداش میں کالعدم قراردیا۔

ویسے آزادی دنیا کے ہر قوم کا بنیادی حق ہے، جسے دنیا کا ہر قانون تسلیم کرتا ہے کہ ہر قوم اپنے آزاد وطن کا مالک رہے، اسی لیئے یہ آزادی بلوچوں کا بنیادی حق ہے، اس کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

شبیر ایک آزادی پسند باشعور طالب علم ہے، اگر بلوچستان کی تاریخی پس منظر کو مدِنظر رکھا جائے، تاریخی حوالے سے دیکھ لیں تو بلوچستان پاکستان کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا ہے، پاکستانی باشندوں کا کلچر، تہذیب، بودوباش، بلوچ قوم سے بلکل باقی پاکستانیوں سے الگ ہیں بلوچ کا پنجابی سے کوئی مشابہت نہیں ـ

پاکستان نے 27مارچ 1948کو بہ زور شمشیر بلوچستان پر قبضہ کیا لیکن بلوچ قوم شروع سے پاکستانی قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے۔ بلوچ ریاست پاکستان کے خلاف پہلے دن سے اعلانِ جنگ کیئے ہوئے ہیں، یہ جنگ ساٹھ اور ستر کے دہائی سے ہوتے ہوئے موجودہ جنگ تک آپہنچی ہے۔ جنگ کی ہیت نے2000 میں ایک جدید روپ دہار لیا، قدرے شدت کے ساتھ رونما ہوا، اس متحرک تحریک میں نوجوان، بزرگ، بچے، عورت شامل ہوئے۔ لیکن نوجوان زیادہ سے زیادہ اس جہد میں مصروف رہے۔ ویسے اکثر اوقات نوجوان طبقہ تبدیلی لانے میں سرِ فہرست رہے۔

شبیر بھی اُن نوجوانوں میں سے ایک ہے، جو تبدیلی کیلئے ہر مصیبت کا سامنے کرتے ہوئے آج زندان میں بند اذیتیں سہہ رہا ہے۔ مگرمیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شبیر بلوچ اذیت بر داشت کر رہا ہے، وہ اچھے مستقبل کے لیئے آزاد خو دمختار وطن کیلئے سب کچھ قربان کررہا ہے۔ جب وہ بی ایس او آزاد جیسے تنظیم کا رکن منتخب ہوا، انہوں نے اُسی دن فیصلہ کیا ہوگا کہ ہمیں ہر طرح کے تکلیف کو بر داشت کرنا پڑے گا، مجھے زندانوں میں بند کیا جائے گا یا مجھے شہید کیا جاسکتا ہے۔

شبیر جان کے بارے میں عزت لکھتے ہیں کہ شبیر نے ایک بار کہا تھا کہ میں اپنے ہی حق کیلئے کیوں نا مروں، حق بھی میرا زندگی بھی میرا، میرا حق ہے کہ بغیر کسی مسئلے کے مجھے مل جائے، اس بات سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے حق و وطن سے کتنا محبت کرتا ہے اور اس بات کا تصدیق کررہا ہے کہ میرا وطن ہے اس پر قبضہ کیا گیا ہے، قبضہ گیر کو ہمارے سرزمین سے نکلنا چاہیئے۔

4اکتوبر 2016 وہ دن ہے جس روز پاکستانی خفیہ اداروں اور پاکستانی آرمی کے اہلکاروں نے کیچ کے علاقے گورکوپ سے شبیر بلوچ سمیت بہت سے لوگوں اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جو تا حال لاپتہ ہیں۔ شبیر جان کو دو سال مکمل ہوا ہے، شبیر جان کے بارے میں اب تک کوئی خبر نہیں شبیر جان کے لواحقین نے اسکے اغوا ہونے کے خلاف ہر پرامن احتجاج کیا۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ شبیر جان کو منظرِ عام پر لایا جاسکے، اگر آزادی کا مطالبہ جرم ہے تو ہر بلوچ کی مطالبہ ہے، ہماری سرزمین سے پاکستان نکل جائے، یہ کو ئی جرم نہیں ہے، شبیر بلوچ سمیت تمام نوجوان جو اغواء ہوئے ہیں، وہ جنگی قیدی ہیں انہیں جنگی قیدی تصور کریں۔ انکو عدالت میں پیش کریں، انہیں قوانین کے مطابق سزادی جائے لیکن منظر عام پر لے آئے لیکن پاکستانی فو ج نے انسانی حقوق کے پامالیوں کے تمام حدود پار کرچکی ہے، تمام انسان دوست اداروں سے اپیل ہے کہ لاپتہ شبیر جان کی رہائی میں اپنا کردار ادا کریں، شبیر جان کوبازیاب کروائیں۔