سی پیک سے پاکستان کو فائدہ یا نقصان
تحریر: سنگت بابل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سی پیک پر چین 46 ارب ڈالر لگا رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بڑھ کر 70 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے، یہ پیسے چین کے مطابق پاکستان پر قرض ہیں جو سود سمیت واپس کرنے ہیں اور منافع جو بھی ہوگا اس میں پاکستان کا حصہ صرف 10 فیصد ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ سی پیک کے زریعے وہ پاکستان کا مدد کرنا چاہ رہا ہے کیونکہ پاکستان جو ایک نومولود ریاست ہے، اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان عالمی قرضوں میں اتنا دب چکا ہے کہ اس بوجھ سے پاکستان کے لئے نکلنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ معاشی حوالے سے بدحال پاکستان میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ 65 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اکثر لوگوں کے پاس رہنے کے لئے اپنا مکان تک نہیں ہے۔ اکثربچے اسکول نہیں جاتے یہ بچے یا تو کم اجرت پر مزدوری کرتے ہیں یا بھیک مانگتے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی نہ جانے کتنے مسائل میں جکڑا ہوا ہے پاکستان۔
اب ایسے ملک کو مزید قرض دار کرکے چین کیا چاہتا ہے۔ یہ پاکستان کی مدد نہیں بلکہ ایک دھوکے کا مترادف ہے۔ لیکن چین کی اس میں کیا مفاد ہے آئیے دیکھیں۔
چین اپنے ضرورت کا تیل مڈل ایسٹ سے لیتا ہے۔ یہ تیل کی سپلائی آبنا ئے ہرمز سے ہوتے ہوئے ایران سے بحرے بلوچ سے گزر کر انڈیا سے ہوتے ہوئے ملکہ اسٹیٹ سے بحرالکاہل میں داخل ہوکر چین پہنچتا ہے۔ یہ تقریباً دس ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے چین پہنچتا ہے۔ جو طویل تو ہے لیکن خطرناک بھی ہے کیونکہ اس راستے پر آنے والے اکثر ممالک چین کے دشمن ہیں جن میں ویتنام، فلپائن، انڈونیشیا، تائیوان، ملائیشیا، برونائی سرفہرست ہیں۔ جن کا ساؤتھ چین،سی، پر چین کے ساتھ دشمنی ہے کیونکہ ساؤتھ چائنا سی، جو چین کے قبضے میں ہے اس پر ان تمام ملکوں کا کہنا ہے کہ اس میں ہمارا حصہ ہے، جو چین نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
دوسری طرف جاپان اور انڈیا بھی چین کے سب سے بڑے دشمن ہیں، ذرا غور کیا جائے تو امریکا اور روس بھی چین کے دوست نہیں ہیں اب اگر کوئی جنگ کی نوبت آتی ہے تو چین کے دشمنوں کو صرف تیل کا راستہ بند کرنا ہے۔ چین کو شکست دینے کے لئے اگر اس صورت میں چین کی سپلائی بند ہوجاتا ہے۔ تو چین کے لئے متبادل راستہ ہے گوادر کا، اس لیئے چین گوادر کو اپنے استعمال کے لئے اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے تاکہ مشکل میں تیل کی سپلائی جاری رکھ سکے۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو گوادر سے فاصلہ بھی تقریباً2600 چھبیس سو کلو میٹر ہے۔ جس سے چین کو بحرالکاہل کے مقابلے میں جو طویل سفر ہے۔ تقریباً 2 ارب کا سالانہ بچت ہوگا اور وقت بھی کم استعمال ہوگا۔ اور چین بھی پاکستان کی طرح ہے، جس میں بے روزگاری ہے۔ سی پیک سے چین کو یہ بھی فائدہ ہوگا کہ وہ اپنی لوگوں کو لاکر روزگار فراہم کرے گا۔ جس کی شروعات ہوچکی ہے۔ آپ کو پاکستان میں چائینیز نظر آتے ہیں اور پاکستان میں چین اپنی زبان سکھا رہا ہے تاکہ ان کے لوگ یہاں آئیں تو انہیں آسانی ہو۔ لیکن کیا گوادر ٹو کاشغر تک تقریباً 2600 کلومیٹر ہے۔ جس کا زیادہ تر حصہ بلوچستان گزرتا ہے جو حالات جنگ میں ہے جہاں پر پاکستان لاکھوں فوجی لگا کر اتنے عرصے میں خود اپنی سیکورٹی ادارے محفوظ نہیں ہیں۔
بلوچستان میں آزادی کی تحریک اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہے، یہ جو جنگ آزادی ہے اس میں دونوں اطراف کئی لوگ مارے جاچکے ہیں۔ فوجی ترجمان کے مطابق بلوچستان میں سالانہ کئی فوجی مارے جاتے ہیں اور حملہ آور فوجی چھاؤنیوں، کیمپوں ہر جگہ حملے کرتے رہتے ہیں حالیہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان آچکا ہے کہ ہماری تمام توجہ بلوچستان پر مرکوز ہے۔ یہ بیان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بلوچستان میں فوج مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
تو ایسی صورتحال میں چین اپنی سپلائی کیسے یہاں سے جاری کریگا۔ کیا چین اپنی فوجیں بلوچستان میں اتار کر سڑک کی سیکورٹی کو یقینی بنائے گا تو ایسی صورت میں یہ چین کو بہت مہنگا پڑے گا دوسری جانب اس عمل سے بلوچستان میں جو تحریک آزادی ہے اسے مزید تقویت ملے گی جو پاکستان نہیں چاہتا کیونکہ اس سے پاکستان کا نقصان ہوگا اگر نہیں تو پھر اگر روزانہ ایک گاڑی پر حملہ ہوا تو بھی چین کو نقصان ہوگا جو چین کے لیے نیک شگون نہیں اور اس طرح کے حملے کرنا بلوچ سرمچاروں کے لیے کوئی مشکل نہیں جو فوجی قافلوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
دوسری طرف چین کے جو دشمن ہیں وہ پاکستان کے بھی دشمن بن چکے ہیں، تو چین کے ساتھ جو لڑائی انہیں لڑنی ہے اسے وہ پاکستان میں چین سے آسانی سے لڑسکیں گے۔ یہاں نہ ان کے فوجی خرچ ہونگے نہ ان کے تنصیبات کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ یہاں یعنی پاکستان میں چین سے لڑنے کے لئے چین دشمن ملکوں کو جو پاکستان کے دشمن بن چکے ہیں۔
پاکستان میں موجود مظلوم طبقوں کو سپورٹ کریں، جو پاکستان سے علیحدگی یعنی آزادی چاہتے ہیں جن میں سرفہرست بلوچ تحریک آزادی ہے۔ جو پہلے سے بقول پاکستانی فوج کے کہ ان کے ناک میں دم کر رکھے ہوئے ہیں اگر انہیں تھوڑی بھی مدد مل جائے تو وہ بہ آسانی مشترکہ دشمن کا کام تمام کردیں گے۔
اور ان کے علاوہ پختون،سندھی، مہاجر، سرائیکی وقفے وقفے سے اپنے خلاف ہونے والے ظلم نا انصافی کے خلاف پاکستان سے آزادی کے لئے چیختے رہے ہیں جس کی واضح ثبوت ہے۔ سندھی مہاجر، پختون سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیاں ہیں۔ ان سب کو اگر کوئی باہر کی قوت مدد کرے تو یہ یہاں پر چین اور پاکستان دونوں کو مشکلات میں ڈال کر رکھ دیں گے اور چین کی پاکستان میں موجودگی کی صورت میں مظلوم طبقوں کی مدد کرنا دوسرے ملکوں کی مجبوری بن جائے گی۔ چاہے وہ امریکہ۔ جاپان انڈیا اور اس صورت میں نقصان سب سے زیادہ پاکستان کا ہوگا، دوسری جانب پاکستان اور چین بارڈر وہ علاقہ ہے کاشغر جسے مسلمان سنکیانک کہتے ہیں وہاں مسلمان چین سے علیحدگی یعنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور ان پر چین نے مذہبی پابندی لگادی ہے پچھلے دنوں BBC کی ایک رپورٹ کے مطابق کاشغر میں چین نے مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا ہے، جس پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے ادارے نے ایکشن بھی لی ہے۔ لیکن ظلم اب بھی جاری و ساری ہے۔
کاشغر وہ علاقہ ہے جہاں سی پیک کے ذریعے چین مشرقی چین سے غیر مسلموں کو لاکر آباد کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیں، جس طرح چین اور پاکستان گوادر میں کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن سی پیک مشکل ہے کامیابی کی منزل کو چھو سکے کیونکہ ایک طرف بلوچ آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری و ساری ہے اور دوسری طرف چین و پاکستان کے دشمن نہیں چاہتے کہ سی پیک جیسا پروجیکٹ کامیاب ہو،ادھر پاکستان کا ہمسایہ ملک ایران جو ہمیشہ پاکستان کو بلوچستان میں مدد کرتا آرہا ہے وہ بھی اب پاکستان کا نہ رہا کیونکہ اب چاہبار پورٹ میں انڈیا سرمایہ کاری کررہا ہے تاکہ گوادر کو کاؤنٹر کرسکے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔