سعودی ایران تنازعہ اور پاکستان کا کردار ۔ جاوید لاڑک ۔ سمیر

286

سعودی ایران تنازعہ اور پاکستان کا کردار

تحریر۔ جاوید لاڑک

ترجمہ۔ سمیر

دی بلوچستان پوسٹ

بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی اصول ہے کہ ملکوں کے مابین دوستی اور دشمنی ان کے مستقل مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ پاکستانی گورنمنٹ بے شک یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ سعودی عرب کی نوازش اس کی کسی کارگذاری کی وجہ سے ہے لیکن سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ اصل حقیقت اور معاملہ کیا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ہمیشہ سکرات میں مبتلا ملکی معیشت میں ایسے اچانک سانس پڑ گیا ہو۔ ملکی تاریخ میں ایسے مواقع بار بار آتے رہے ہیں کہ پاکستان کبھی امریکی آنکھوں کا تارہ تو کبھی عربوں کا لاڈلا بن جاتا ہے۔

اسی آشیرباد کے پیچھے بنیادی سبب ان طاقتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ہماری ہروقت جی حضوری والی عادت کام کو آسان بنا دیتی ہے۔ اس مرتبہ بھی معاملہ مختلف نہیں ہے۔ سالوں سے جاری ایران سعودی سرد جنگ کسی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ تازہ ملنے والی سعودی امداد اسی سرد جنگ میں پاکستان کے امکانی کردار کی’ قیمت‘ تو نہیں ہے؟

مشرق وسطیٰ کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ ایران سعودی تنازعہ، آج کے مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا سیاسی سچ ہے۔ کم ازکم پانچ ممالک اسی تنازعے کا سیدھی طرح شکار ہیں۔ عراق، شام، بحرین، لبنان اور یمن اسی سرد جنگ کے محاذ ہیں۔ عراق اور شام میں واضح طور پر طاقت کا توازن ایران کے حق میں جا چکا ہے۔ دونوں ملکوں میں داعش کو شکست دینے کے بعد ادھر ایران کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں اور ان دونوں ملکوں میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر کو سعودی عرب اپنی شکست سمجھتا ہے۔ دراصل ۲۰۱۵ء میں ہی سعودی عرب پر واضح ہو چکا تھا کہ عراق اور شام میں ایران کو برتری حاصل ہو رہی ہے اور اس شکست کے احساس کو مٹانے کے لیے ہی سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا تھا۔ یمن کے بابت سعودی عرب کے سب اندازے ابھی تک غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ دراصل یمن میں سعودی عرب ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے، جس میں سے نکلنے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ یمن اور سعودی عرب کے بیچ تقریباً ۱۸۰۰ کلومیٹر کی سرحد ہے۔ جس کو مستقل طور پر مکمل محفوظ بنانا سعودی عرب کے بس سے باہر ہے۔

یمن میں سعودی جارحیت کو بڑی ہمت کے ساتھ منہ توڑ دینے والے حوثی باغیوں نے اس جنگ کو ایک نا ختم ہونے والا جنگ بنادیا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ حوثی باغیوں کو ایران کا تعاون بھی حاصل ہو رہا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کے لیے سیکیورٹی کا سب سے بڑا چیلینج یمن جنگ میں ایران کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔

یمن جنگ میں ایران کے کردار کو محدود کرنے کے لیے سعودی عرب کی اہم حکمت عملی یہ ہے کہ اس کو اسی کے گھر کے اندر ہی محدود کیا جائے۔ ایران، سعودی عرب سے اپنی سرد جنگ کو کامیابی کے ساتھ یمن میں سعودی عرب کے دروازے تک لے آیا ہے۔ ۱۸۰۰ کلومیٹر کی لمبی سرحد پر لڑی جانے والی اس جنگ نے سعودی عرب کو دنیا کی سب سے بڑی غیر محفوظ بادشاہت بنا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان کہ ’سعودی حکومت ہمارے بغیر دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی ‘ دراصل اسی تناظر میں ہے۔

سعودی عرب کی بڑے عرصے سے کوشش رہی ہے کہ کسی بھی طرح ایران کو غیر مستحکم کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی عملی صورت ایران کے اندر حکومتی تبدیلی کی کوشش ہے۔ ایرانی حکومت کی تبدیلی کے مقصد میں سعودی عرب کے ساتھ امریکا بھی برابر کا شریک ہے۔ امریکا نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے ایران کے اوپر اقتصادی پابندیوں کا راستہ اختیار کیا ہے، جبکہ سعودی عرب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر طریقہ اختیار کرسکتا ہے۔

سعودی عرب کسی وقت میں افغان طالبان کو ایران کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے پر کام کرتا رہا ہے لیکن اس میں سعودی عرب کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے کیونکہ ایران نے کامیابی سے افغان طالبان کے ساتھ اپنے اختلافی معاملات حل کردیئے ہیں۔ ایران کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سعودی کے پاس دوسرا راستہ ایرانی بلوچوں کے ذریعے انتشار پھیلانا ہے۔جنداللہ نامی تنظیم کے ذریعے سعودی عرب پہلے سے ہی اس منصوبے پر کام کر رہا ہے لیکن یمن اور شام کی تازہ صورتحال میں سعودی عرب بلوچوں کے ذریعے اپنی کاروائیوں کو تیز کرنا چاہتا ہے۔

اس ساری صورتحال میں یقینی طورپر نظر یہ آرہا ہے کہ سعودی ایران سرد جنگ میں نیا گراؤنڈ بلوچستان میں جڑنے والا ہے۔ اس خدشے کو سپورٹ سعودی حکومت کی پاکستان کے اوپر اچانک ہونے والی مہربانی (امداد) سے ملتی ہے۔ تازہ سعودی امدادی پیکیج میں دوسری باتیں تو اپنی جگہ پر لیکن سعودی حکومت نے پاکستان کی معدنیات کے شعبے میں خاص دلچسپی دکھاتے ہوئے اس میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ معدنیات کے شعبے میں سعودی دلچسپی کا عملی مطلب ہے کہ بلوچستان میں اپنی بیٹھک بنانا ہے۔ بلوچستان میں سعودی بھیٹھکیں ایران سعودی سرد جنگ میں پاکستان کو بھی ایک فریق بنا دیں گیں۔

اس ساری صورتحال میں چین لاتعلق نہیں رہ سکتا، چین اور امریکا کی اقصادی معاشی جنگ بھی دن بدن تیز ہوتی جارہی ہے۔ چین اور ایران ایک دوسرے کے معاشی سپورٹر ہیں، دوسری طرف چین کے سعودی عرب کے ساتھ کوئی مثالی تعلقات نہیں ہیں۔ چین سعودی عرب کو امریکا کادوست سمجھتا ہے۔ اسی طرح چین کبھی بھی پاکستان کو ایران سرد جنگ میں داخل ہونے نہیں دے گا۔ سی پیک کی صورت میں چین پاکستان کے اندر بڑی اور لمبے عرصے والی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

پاکستان کے اندر ایران سعودی سرد جنگ کے باعث خود پاکستان غیر مستحکم ہو سکتا ہے اور اس سے سی پیک کے مستقبل پر بھی اتنے ہی سوال اٹھ سکتے ہیں۔ اس لیے چین کبھی بھی پاکستان کو ایران سعودی سرد جنگ کا میدان بننے نہیں دے گا۔ اس تنازعے کے پیچھے علاقائی اور عالمی طاقتوں کی اقتداری کشمکش ہے۔ اور وہ کشمکش بلوچستان کو ۸۰ کی دہائی والا افغانستان بنا دے گا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔