پشتونخواملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام 7اکتوبر1983 کے شہداء جمہوریت اور 11اکتوبر 1991کے شہدا وطن کی برسی کا جلسہ عام میٹروپولیٹن کاروپوریشن کوئٹہ کے سبزہ زار پر پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 7اکتوبر 1983کو جب ملک میں جنرل ضیاء کی فوجی آمریت تھی تو اس وقت ایم آر ڈی اور پشتونخوامیپ کے زیر اہتمام جمہوریت کی بحالی کیلئے کوئٹہ میں پر امن احتجاج کا اعلان کیا گیا مگر اس وقت کے فوجی آمروں نے پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پارٹی کے سرباز کارکن اسلم اولس یار ، کاکا محمود ، داؤد اور رمضان نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا 15سے زائد پارٹی کارکن شدید زخمی ہوئے اور پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر کلیم اللہ خان ، عبدالقہار خان سمیت درجنوں رہنماء کئی سال تک آمریت کے دور میں پابند سلاسل رہیں اور اسی طرح 11اکتوبر1991کا المناک اور دلخراش واقعہ ہوا جس میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات عبدالرحیم کلیوال ،باز محمد باز، صابر شاہ ، صاحب خان اور حبیب الرحمن شہید ہوئے۔ آج ہم ان کے لازوال قربانیوں پر انھیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں
انہوں نے کہا کہ آج تمام غیور پشتون افغان ملت کو وسیع قومی بیداری پیدا کرنی ہوگی اور پشتون عوام کے تمام علماء کرام ، کاروباری حضرات اور وطن کے ہر باسی جو اس سرزمین اور وطن کی بربادی پر غمزدہ ہے سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قوم کی خاطر متحد ہوکر اپنی جدوجہد کو دوام دیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور اس میں تمام اقوام اپنی اپنی سرزمین پر آباد ہیں یہاں نہ کوئی غلام ہے اور نہ کوئی اپنے آپ کو فاتح سمجھے اور غیور پشتون افغان ملت کو کوئی آزادی ، انصاف اور اپنی سرزمین سے محبت کا درس نہ دے کیونکہ ہماری غیور ملت نے اس وطن کی آزادی کیلئے تاریخی جدوجہد کرتے ہوئے تاریخی قربانیاں دی ہیں جبکہ اپنے آپ کو اس ملک کانام نہادخیر خواہ سمجھنے والوں کو آزادی اور سرزمین سے محبت کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا جب اس سرزمین پر فرنگی استعمار نے اپنے پنجے گاڑے تھے تو اس وقت ہمارے رہنماؤں اور ہماری ملت کے غیور نوجوانوں اور وطن پر سرقربان کرنیوالے نے فرنگی کے خلاف آزادی کا علم بلند کیا اور تب جا کر خطے کے کروڑوں عوام واقوام کو فرنگی استعمار سے آزادی نصیب ہوئی ۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں ایک آئین بنایا گیا ہے اگر چہ کہ اس آئین کے ہوتے ہوئے بھی پشتون غیور ملت ا س ملک میں چار مختلف حصوں میں منقسم ہے میانوالی اور اٹک کے عوام پنجاب میں شامل ہیں ، جنوبی پشتونخوا کو بلوچستان کے نام سے یرغمال بنایا گیا ہے ، خیبر پشتونخوا کو الگ اور جبکہ فاٹا کے حوالے سے اب تک علیحدہ صورتحال ہے ۔ جبکہ ہم اس غیور ملت کو متحد اور ایک وحدت میں لانا چاہتے ہیں۔ اس قومی وحدت اور صوبے کا نام پشتونستان ، پشتونخوا یا افغانیہ ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی آئین کے تحت فوجی حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ ملکی آئین کا احترام کرتے ہوئے کبھی بھی سیاست میں مداخلت نہیں کرینگے اسی طرح میونسپلٹی کے کونسلر سے لیکر وزیر اعظم تک سب سیاسی نمائندے آئین کے احترام اور ضرورت پڑنے پر ان کے دفاع کا حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ ملکی آئین کا دفاع کرینگے او ر تمام ججز بھی آئین کے احترام اور ضرورت پڑنے پر آئین کی حفاظت اور دفاع کا عہد کرتے ہیں ۔لیکن میں آپ تمام کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ کیا فوج حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ؟ اس صوبے میں ایک بریگیڈیئر صاحب نے ’’باپ ‘‘پارٹی بناکر حکومت ان کے حوالے کی اور آج وہ حکومت چلانے میں بری طرح ناکام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک رضاکارانہ فیڈریشن ہے جس میں پشتون ،بلوچ ، سندھی ،پنجابی اور سرائیکی اقوام اپنے آبائی وطنوں پر آباد ہے اور یہاں کوئی فاتح اور مفتوح نہیں بلکہ پاکستان ایک عمرانی معاہدے کے تحت وجود رکھتا ہے اگر چہ پشتون ملت کے تحفظات اور اعتراضات موجود ہے کیونکہ موجودہ آئین پشتون قوم کو ایک متحدہ قومی صوبہ نہیں دے رہا ۔لیکن پھر بھی ایک جمہوری پارلیمانی پاکستان جس میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو اور پارلیمنٹ ہی ملک کے خارجہ وداخلہ پالیسیاں تشکیل دے ایسے حقیقی جمہوری پاکستان کی تشکیل کے ہمیشہ طرف دار رہے ہیں اور رہینگے اور اس کیلئے ہر قربانی دینگے۔ لیکن جس انداز میں دن دہاڑے اور سرعام ہمارے بعض اداروں اور اسٹیبلشمنٹ نے 2018کے انتخابات میں بدترین مداخلت کی وہ سب غیر آئینی ہے ۔اور جب اسٹیبلشمنٹ ہی ملک کی آئین کا احترام نہیں کریگی تو اس سے ملک کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ ایسے حالات میں ہر قسم کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف سیاسی اور جمہوری قوتوں کی جدوجہد فرض ہے اور پشتونخوامیپ اس جدوجہد کا بھرپور ساتھ دے گی اور اس جدوجہد میں میڈیا نے بھی شامل ہونا ہوگا میڈیا آزاد ہوگا ،انصاف ہوگاتو پاکستان مستحکم ملک کے ساتھ ساتھ چین جیسا ترقی یافتہ ملک بھی بن سکتا ہے ورنہ مسلسل اس کے برعکس غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیرسیاسی طرز عمل اورمسلسل بحرانوں کی وجہ سے ملک انتہائی خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے اور عالمی سیاست میں یک وتنہا ہوگیا ہے اور اس کے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عوام پر بھروسہ کیا جائے عوام سے مشورہ کرتے ہوئے عوام کی مرضی کو تسلیم کیا جائے۔ لہٰذا پشتونخوامیپ اور غیور پشتون ملت غیر جمہوری اور مسلط کردہ حکومتیں کسی صورت بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت ہوگی اور تمام اقوام اپنی سرزمین کے مالک اور ان کے وسائل پر ان کا اختیار ہوگا اور اس سلسلے میں آئینی ضمانت دینی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہم فوج اور ان کے اداروں کے ہر گز خلاف نہیں اگر وہ سیاست میں مداخلت نہ کرے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھائیں تو ہم زمانہ جنگ میں ان کے شانہ بشانہ ہونگے مگر ہم کسی بھی طرح فوج کی حکومتوں میں مداخلت برداشت نہیں کرینگے اور ان باتوں کی وجہ سے کچھ عاقبت نااندیش لوگ ہم سے ناراض ہے ۔انہوں نے کہا کہ 25جولائی کے انتخابات مکمل طور پر بدترین دھاندلی پرمبنی تھے اور ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن کے نتائج اعلان ہوتے ہی پہلے 10گھنٹوں میں ہی تمام پارٹیوں نے یک زبان ہو کر اس کو مسترد کیا اور اس سے الیکشن کی بجائے سلیکشن قرار دیا اور ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا اور اب بھی ہمارا مطالبہ وہی ہے کہ ملک میں صاف وشفاف انتخابات ہو ۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں چالیس سال سے جنگ جاری ہے اور اس دوران لاکھوں کی تعداد میں افغان پشتون ملت کا قتل عام ہوا ،افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا مگر اب بھی افغانستان میں مداخلت جاری ہے دوسری جانب افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کہہ رہے ہیں کہ ہم مداخلت نہیں کررہے ہیں تو کیا جنات افغانستان میں جنگ لڑرہے ہیں اور مداخلت کررہے ہیں ہم صاف طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ جب تک افغانستان میں ہمسایہ ممالک کی مداخلت کی پالیسی ترک نہیں کریگا اس وقت تک افغانستان میں امن نہیں آسکتا اور افغانستان میں امن کے قیام سے پاکستان کا امن بھی مشروط ہوگیا ہے ورنہ تمام خطہ آگ وخون میں جلتا رہیگا ۔ اور یہ طے شدہ بات ہے کہ میدان جنگ میں لڑنے والوں کیلئے جب تک محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہونگے ان کے لئے اسلحہ وبارود کی سپلائی نہیں ہوتی رہیگی تو وہ کیسے جنگ لڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ ، یورپی اور دیگر دنیا افغانستان کا مقروض ہے کیونکہ ان تمام نے کہا کہ افغانستان میں روسی فوج نے جارحیت کی ہے اور روسی افواج گرم پانی یعنی گوادر تک رسائی چاہتے ہیں لہٰذا ہم آپ کو اسلحہ اور پیسے دینگے اور جنگ افغان خود لڑینگے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ میں افغان عوام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جن قوتوں نے انھیں روس کیخلاف جہاد کرنے کا درس دیا آج ان سب نے روس کے ساتھ دوستی کی ہے مشترکہ مشقیں کررہے ہیں اور گوادر کو چین کے حوالے کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ جب روسی افواج افغانستان سے رخصت ہوئی تو کیونکر افغانستان میں جنگ کو جاری رکھا گیا حالانکہ روسیوں کے جانے کے بعد افغانستان میں مزید جنگ کرنا کہاں کا انصاف تھا؟ اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبران نے اس وقت کہاتھا کہ افغان عوام نے اپنے وطن کا دفاع کیا اب سلامتی کو نسل کے ان ممالک کو جنہوں نے افغان عوام کو جنگ لڑنے پر مجبور کیا انھیں چاہیے کہ وہ افغانستان میں مداخلت کاروں کے ہاتھ روک لیں۔ اور جو بھی ہمسایہ ممالک افغانستان مداخلت کررہے ہیں ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔کیونکہ افغانستان میں امن اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک ہمسایہ ممالک مداخلت اور جارحیت کی پالیسی تبدیل نہیں کرتے۔ انہوں نے کہاکہ ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے سے قوموں اور قبیلوں کو تقسیم اور جدا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پورے ڈیونڈ لائن پر دونوں طرف پشتون ملت کے مختلف قبیلے اس طرح آباد ہیں کہ ہر قبیلے کے ڈیورنڈ لائن کی لکیر پردونوں طرف گاؤں ، مسجد ، زمینیں ،چراگاہیں اور قبرستان تک موجود ہیں۔لہٰذا ایک ہی گاؤں کے لوگ اپنے گاؤں ،عزیز واقارب اور زرعی زمینوں اور چراگاہوں کیلئے تو پاسپورٹ نہیں لے سکتے ۔
لہٰذا حکمران ہوش کے ناخن لیں کیونکہ دنیا میں ایک زبان اور ایک قوم کے لوگوں کو خاردار تاروں کے ذریعے تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان یہ چاہ رہا ہے کہ یہاں امن ہو تو اس کی پہلی سیڑھی یہ ہوگی کہ افغانستان میں امن کو قائم رکھنے کیلئے وہاں مداخلت ختم کرنی ہوگی ہم ایک جمہوری اور مترقی پاکستان کی طرح ایک جمہوری مترقی افغانستان کے بھی خواہاں ہے ۔