بلوچستان اور عالمی طاقتیں – کمال بلوچ

299

بلوچستان اور عالمی طاقتیں
بلوچ لیڈر شپ کی ذمہ داریاں

کمال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں جب محکومی، مظالم، بربریت یا سیاسی ماحول کی بات کی جاتی ہے تو ہر چیز آئینے کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔ ہر طرح کے سوالا ت بہت آسان ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ہم بلوچستان کے اصل مسئلے کے متعلق جانکاری رکھتے ہیں اور عملاً ان کا سامنا کر رہے ہیں۔ ۔ بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے پاکستانی ریاست بلوچستان میں ڈیموگرافک تبدیلی لانے کی کو شش میں ہے۔ یہ تبدیلی ہر قابض کی خواہش ہے۔ لیکن بلوچستان میں ایسے منصوبے ہر وقت ناکام رہے ہیں۔ بلوچوں نے ہر قبضہ گیر اور حملہ آور کے خلاف مزاحمت کی ہے اور اسے پسپا کردیا ہے۔

بلوچستان اب عالمی طاقتوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ بلوچستان اپنی جغر افیائی اور سیاسی اہمیت کی وجہ سے ہر طاقت کے اندرونی مباحث میں شامل ہے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بہت سی نظریں بلوچستان پر ٹکی ہوئیں ہیں مگربلوچستان میں تاریخی مزاحمت نے ہر وقت ہر ایک کو سوچنے پر مجبور کر دیاہے۔ اس وقت بلوچستان پر پاکستان قابض ہے جو تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے لیکن ان کی استحصالی پالیسوں پر نظر رکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح پاکستان بلوچستان کے سیاسی،ثقافتی،مزاحمتی،ادبی کلچر کو تباہ و بر باد کررہا ہے۔

پاکستان سلو پوائزننگ کی طرح بلوچوں کے دل میں دماغ میں اترنے کی نا کام کوششیں کررہا ہے۔ ان کی ہر طرح کی کوششیں رواں دواں ہے۔ ہر ایک کو خبر ہے کہ بلوچستان کی سرزمین کو مختلف ممالک کو سرمایہ کاری کے لیے دیا گیا ہے۔ کئی علاقوں میں بلوچ آج اقلیت میں ہیں۔ کراچی، کو ئٹہ اور حب چوکی کسی بھی زاویے سے بلوچ علاقے نہیں رہے۔ گوادر میں نو آبادی کا سلسلہ پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچ قوم بھی اپنی شناخت کو بچانے کیلئے جد وجہد میں بر سر پیکار ہیں۔ اس دفعہ بلوچو ں کی مو جودہ لیڈرشپ سمیت سیاسی کارکنو ں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہم اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنا قومی فر ض پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟ اس طرح ہم میں خود سے سوال کرنے کی جرات پیدا ہو جائے تو اندر کے ضد اور انا خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ہروقت اپنے سرزمین کے حالات اور قابض کی پالیسوں کو صحیح بنیادوں پر پرکھنا چاہیئے۔ اس طرح ہمیں اپنی سیاست اور مزاحمت کو آگے لیجا نے میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔

سرمایہ کار اپنے مفادات کیلئے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی میں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بلوچ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ چین کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اب سعودی عرب بھی بلوچ نسل کشی میں شریک ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ امریکہ کس طرح بلوچ نسل کشی میں پاکستان کے ساتھ دے ر ہا ہے؟ انتہا پسند ی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان دنیا سے مد د حاصل کر رہی ہے۔ امداد فراہم کرنے والوں میں سرفہرست امریکہ ہے۔ امریکی عسکری امداد اور ساز و سامان کو پاکستان براہ راست بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے استعمال کررہا ہے۔ کیا ہم اس سے بے خبر ہیں؟

حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو کی ملاقات ہوئی جس میں خطے کی صورتحال پر بحث کیا گیا۔ لیکن بلوچستان کی صورتحال پر بحث نہیں ہوئی۔ یہ امریکہ کی جانب سے ایک اجازت نامہ کے برابر ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے اس ملاقات کے بعد وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کو باہمی مفادات کے حوالے سے وسیع البنیاد سطح پر بات چیت کرنی چاہیے اور اس ضمن میں منظم فریم ورک کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیا میں مکمل امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کی ضرورت پر بھی بات کی۔ تاریخی حوالے سے بلوچستان کا ایک اہم مسئلہ ہے لیکن بلوچ مسئلے کو پاؤں تلے دبانے کو شش کی گئی۔ امریکہ میں چینی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کئے جارہے ہیں تاکہ چینی معیشت پر دباؤ ڈالا جاسکے مگر ایک اہم چینی منصوبہ سی پیک دونوں وزرائے خارجہ کا موضوع نہیں رہا کیونکہ اس کی گزرگاہ بلوچستان ہے۔ سی پیک کے ذریعے چائنا اپنے عسکری مفادات حاصل کر نا چاہتا ہے۔ اس خطے کی امن کو تبا ہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف چائنا پاکستان کو سی پیک کے نام پر جو مدد کرتا آرہاہے اس کا بنیادی مقصداسے اس خطے میں ایک طاقت بننا ہے۔ اسی لئے چین ، روس اور پاکستان مذہبی انتہا پسندوں کی کھل کر مد د کر رہے ہیں۔ وہ خطے میں اپنی ایک مضبوط اور علیٰحدہ لابی بنانے کی تگ دو میں ہیں۔

دراصل مسئلہ یہ نہیں کہ یہ انتہا پسند وں کو مدد کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ اس طرح ہے یہ ہماری سر زمین میں انکی پر ورش کر رہے ہیں۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو بین الا قوامی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے اس سے خطے میں تبد یلی آجاتی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ جو تبد یلیوں کی آس لگا ئے بیٹھے ہیں ان کو ہو ش کا ناخن لینا چاہئے۔ جس طرح یہ انتہا پسند وں کی پرورش کر رہے ہیں یہ محکوم قوموں کے لیے انتہا ئی خطر ناک ہے۔

سعودی عرب بلوچستان میں آنا چاہتا ہے۔ یہ پا کستان کی دلی خو اہش ہے کہ سعودی عرب بلو چستان میں سرمایہ کا ری کر ے اور یہاں کے لوگوں کو مذہبی طور پر اثر انداز کرے۔ چونکہ سعودی عرب پہلے ہی مدارس کی شکل میں بلوچستان کے ہر کو نے میں موجو دہے۔ یہاں کے حالات خراب کرنے اور انتہا پسندی کو ہوا دینے میں ان کے کردار سے کو ئی ملک انکار نہیں کر سکتا۔ انکی بلوچستان میں سرمایہ کاری اپنے مالی مفادات کے ساتھ مذہبی مقاصد و اثر و رسوخ بھی ہیں تاکہ وہاں سے ایرانی شیعہ اور بلوچستان کے ہزارہ برادری کو براہ راست دبایا جا سکے۔ جب سعودی ایک طرف گوادر میں ر ہے دوسری طرف چاغی اور دالبندین میں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کی سرزمین میں ایک نئی جنگ کی شروعات کررہے ہیں یا یہ کہیں کہ وہ افغانستان کی جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینا چاہتے ہیں۔ شیعہ اور سنی تضاد ایک اور شکل میں وارد ہونے والا ہے۔ یہ ایر ان اور افغانستان کی امن کو تبا ہ و برباد کر نے کی نئی حکمت عملی ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی پاکستان بلو چوں کی وسائل کو سستے داموں میں بیچنے کی کو شش کر رہا ہے۔۔۔۔ اس بات کو پو ری بلو چ قوم کس طرح لیتی ہے، خاص کر پارلیمنٹ میں بیٹھے نام نہاد قوم پر ست اور ساتھ ہی آزادی پسند حلقے۔ کیو نکہ یہ تبدیلی ایک نئی جنگ کی تیاری ہے۔۔ سعودی عرب اور چائنا اس جنگ کے اہم کھلا ڑی ہیں،مگر دوسری طرف اسے روکنے والوں کی مضبوط پالیسی ہم نہیں دیکھ رہے ہیں۔ پا کستان فوج سمیت پاکستان کے سب سیاستدان ان پالیسیوں کو آگے لے جانے میں کردار اداکرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان ایک لالچی اور دیوالیہ ملک ہے۔ اس ملک کی فوج کرایہ کی فوج ہے: بقول ڈاکٹراللہ نذر بلوچ؛ وہ (پاکستانی فوج) بک سکتی ہے، کسی کے پاس زیادہ پیسے ہوں یہ فوج اُسی کی ہمراہ داری کر نے کو تیارہو جاتی ہے۔ پاکستان امر یکہ کے ساتھ مل کر طالبان بنانے اور افغانستان کے امن کو خراب کرنے میں پیش پیش تھا، مگر اب امریکہ کو کمزور کرنے کیلئے روس اور چائنا کے ساتھ ہم قدم ہے۔

انڈیا،افغانستان اور ایران کو پاکستان کے اس نئے ڈارمے کے بارے میں مضبوط پالیسیاں اپنانا ہو نگی۔ وگرنہ آنے والے دنوں میں انکی صورتحال افغانستان جیسی ہو گی۔ یہ تبدیلی بہت ہی خطرناک صورت اختیار کرلے گا۔ پاکستان میں فوج نے موجودہ حکومت اسی لئے تشکیل دی ہے تا کہ اس کھیل کو عملی جامہ پہنا دے سکے۔

بلوچستان میں نئی جنگ شاید رونما ہو جائے ایسے عالمی کھیل میں ایسی ملکوں کو کھیلنے کی اجازات نہیں دینا چاہئے جو کسی محکوم کی شاخت کو ختم کرنے کا باعث بنیں۔ ایسی صور ت حال میں بلوچ آزادی پسندتمام تنظیموں کو مشتر کہ پالیسی اپنا نا چاہئے اور فوری اس پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔ جس طرح حال ہی میں سعودی عرب کی سرمایہ کا ری متعلق اکثر بلوچ لیڈروں کی پالیسیاں سامنے آئیں جو قدرے مشترک تھیں لیکن اس سے آگے یہ بیان تک محدود رہے۔ میں سمجھتا ہوں اس پالیسی کی بنیاد پرہمیں ایک بیٹھک کر نے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی پالیسی کو بیان کی صورت میں نہیں بلکہ عملی جامہ پہنا سکیں اور دنیا کے ہر مسئلے پر ایک مشترکہ پالیسی لائیں۔ اگر ہم ایک پالیسی سامنے لا نے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم تقسیم در تقسیم کے شکار نہیں رہیں گے۔ بین اقوامی سطح پر اگر بلوچ ڈپلو میسی ناکام نظر آتی ہے وہ بھی بلوچ لیڈر شپ کی اپنی پالیسیاں ہیں جو بنانے میں ناکام نظر آتے ہیں بلکہ Good Faith سے کام لیتے ہیں۔ ہمیں جامع پالیسی بنا نے کی ضرورت ہے اور بلوچ لیڈ ر شپ کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح ایک اچھی پالیسی بنا نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔