کچھووں کی نایاب گرین نسل کا کچھوا گوادر کے مغربی ساحل پدی زر پر مردہ حالت میں پایا گیا، اس گرین کچھوے کا وزن 45 کلو گرام سے زیادہ ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی عبدالرحیم نے میڈیا کوبتایا کہ مردہ حالت میں پایا جانے والا سبز کچھوا جنس کے اعتبار سے مادہ ہے، اس کا تعلق سمندر میں پائے جانے والے نایاب کچھووں کی نسل سے ہے جسے ماحولیاتی مسائل سمیت کئی وجوہ کی بنا پر شدید خطرات لاحق ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے کا کہنا تھا کہ گرین کچھوے کی موت کسی ماہی گیر کے پلاسٹک کے ممنوعہ جال میں پھنسنے سے ہوئی،انہوں نے بتایا کہ گرین کچھوی کی نایاب نسل گوادر، پسنی اور اورماڑہ کے سمندر میں پائی جاتی ہے تاہم گرین کچھوے کی جال میں پھنسنے سے موت کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ۔
گوادر کے علاوہ اورماڑہ سے بھی رواں ماہ گرین کچھوی کے مردہ حالت میں پائے جانے کے تین واقعات رپورٹ ہوئے لیکن اس طرح کے اصل واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے، یہ وہ واقعات ہیں جو کہ انسانی آبادی ہونے کی وجہ سے رپورٹ ہوجاتے ہیں تاہم کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں سے یہ واقعات رپورٹ نہیں ہو پاتے ۔
اس بنا پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ گرین کچھوے کی نایاب نسل کو مکران کے ساحلوں پرشدید خطرات لاحق ہیں، اس لیے اس کے تحفظ کے لییمثر اقدامات کی ضرورت ہے، ان قیمتی اور نایاب نسل کے کچھووں کی نسل کشی کا اہم سبب ٹرالر مافیا کے پاس ماہی گیری میں استعمال ہونے والے ممنوعہ جال ہوتے ہیں، ان جالوں میں روزانہ اس قسم کے نایاب آبی جانور پھنس کر مر جاتے ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات عبدالرحیم کاکہناتھا کہ گرین کچھوے کو سانس لینے کے لیے ہر پانچ دس منٹ کے بعد سطح سمندر پر آنا پڑتا ہے اور ماہی گیروں کے نہ نظر آنے والے جال میں پھنس جانیکی وجہ سے اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ سطح سمندر پر آسکے جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے کے مطابق گرین کچھویکی یہ نسل اس قدر نایاب ہیکہ تقریبا ایک ہزار انڈوں میں سے ایک کچھوا ہی زندہ رہتا ہے، ان کا یہ بھی کہناتھا کہ گرین کچھوے کا کچھ لوگ بیماریوں سے شفا کے لییگوشت استعمال کرتے ہیں اور کچھ فالج سے علاج کے لیے خون بھی جب کہ اس کے انڈے بھی کھانے کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں جو یہ کچھوا ساحلی ریت پر دیتا ہے ۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے عبدالرحیم نے بتایا کہ کچھوے کی اس نسل اور دیگر سمندری حیات اور ان کے تحفظ کے لیے جامعہ کراچی کے شعبہ زولوجی کے پروفیسر ڈاکٹرعبدالکریم گبول تحقیق کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے باقی ممالک میں سمندری اور جنگلی حیات کو بچانے کے لیے طرح طرح کے سائنسی بنیادوں پر ریسرچ کی جاتی ہے لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہورہا بلکہ ہم اپنے ہاتھوں سے ان کی نسل کشی کر رہے ہیں۔
عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ سمندری حیات اور خاص طور پر گرین کچھوے کو شدید خطرات لاحق ہونے سے نبردآزما ہونے کی مثر کوششیں نہ کی گئیں تو آئندہ چند سال میں کچھوے کی یہ نسل معدوم ہونے کاخدشہ ہوگا۔