کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3180 دن مکمل

83
File Photo

جو بھی تاریکی میں سچائی کی شمع جلانے کی کوشش کرتا ہے تواسے سفاکانہ تشدد اور قتل و غارت گری کا نشانہ بناکر خوف و دہشت کا پیغام دیا جاتا ہے۔ ماما قدیر بلوچ

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3180 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار سے سیاسی و سماجی کارکن حاجی موسیٰ اور نور بخش بلوچ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ لاپتہ بلوچوں کی عدم بازیابی ،ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے اور اُن کی اجتماعی قبروں کی دریافت سمیت انسانی حقوق کی بدترین پامالی و نسل کشی کے جنگی جرائم جیسے پیدا ہونے والے انسانی المیوں پرلب کشائی کو شجر ممنوعہ قرار دیا جاچکا ہے۔ جس کی خلاف ورزی کرنے والے کی سزا موت قرار پائی ہے۔ پاکستانی مقتدرہ ریاستی قوتوں کے لیے بلوچ قومی سوال کی شدت اس کی شہہ رگ کے عین اوپر پیدا ہونے والی ایسی جان لیوا رسولی بن چکی ہے جبکہ لاپتہ بلوچوں کی عدم بازیابی سمیت ریاست کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بلوچوں کے موقف کی سچائی اور نسل کشی ریاستی جنگی جرائم کو دنیا کے سامنے مزید اُجاگر کرنے کا ایک اور ذریعہ ضرور بنی ہے۔ مثلاً حامد میر پر قاتلانہ حملے اور سبین محمود کو شہید کرنا اور نامزد ملزمان کی خبر پوری دنیا کے تمام بڑے نیوز چینل سے نشر اور اخبارات میگزینوں میں شائع ہوئی اس خبر کے ساتھ حملے کے محرکات میں لاپتہ بلوچوں کی ریاستی فورسز خفیہ اداروں کے ہاتھوں گمشدگی اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کاسوال بھی ایک اہم وکلیدی عنصر کے طور پر زیر بحث آیا جس سے یہ حقیقت مزید روشن ہوئی کہ بلوچوں کو لاپتہ اور ان کی تشدد زدہ مسخ لاشیں پھینکنے والے پاکستانی خفیہ ادارے ہیں جو اس حقیقت کو چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے کہا جو بھی اس تاریکی میں سچائی کی شمع جلانے کی کوشش کرتا ہے تواسے سفاکانہ تشدد اور قتل و غارت گری کا نشانہ بناکر دوسروں کو خوف و دہشت کا پیغام دیا جاتا ہے ۔ یہی سچائی اب تک بلوچ بیان کرتے آرہے ہیں مگر اس پر کوئی کان دھرنے والا نہیں ہے ۔