کرشماتی گدھ – سگار سے ریحان تک – قاضی بلوچ

642

کرشماتی گدھ
سگار سے ریحان تک

قاضی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جوانسال، بہادر، نڈر اور مادر سرزمین کے محبت سے سرشار شہید ریحان جان نے وہ عظیم عمل کر دکھایا جس نے دشمنوں کے دل دہلادیئے اور دنیا کو معلوم ہوا کہ بلوچ اپنی مادر سرزمین کے حفاظت اور دفاع کیلئے دنیا کی ہر بڑی طاقت سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس بات کو شہید ریحان جان کی عظیم قربانی نے سچ ثابت کردیا۔ بلوچ قوم کو اس عمل پر فخر ہونا چاہیئے کہ اب بھی بلوچ قوم میں شہید ریحان جان اور شہید درویش جیسے بہادر اور نڈر سپوت موجود ہیں، استاد اسلم جیسے با صلاحیت، بہادر اور مخلص رہنما موجود ہیں، جو اپنے دشمن کا جگر چیرنے کیلئے اپنے جگر کے ٹکڑے کو بارود بناکر انکے بیچ روانہ کردیتا ہے۔ ماں یاسمین جیسی نڈر اور حوصلے والی مائیں موجود ہیں، جو اپنے جسم کے ٹکڑے کو ھالو ھلو کرکے مسکراتے ہوئے اس کی پیشانی چوم کر اسے مادر سرزمین کیلئے قربان ہونے کی خاطر بھیج دیتی ہیں، ایسا حوصلہ ایسا ضبط اور ایسی بہادری آج تک نہ دیکھی گئی ہے، نہ سنی گئی ہے، جو ہمیں استاد اسلم، ماں یاسمین اور ریحان جان کی عظیم قربانی نے دکھائی ہے۔

اس عمل کے بعد ہم نے دیکھا چند لوگوں نے سوشل میڈیا یا دیگر مختلف پروگراموں اور فورمز پر اس عظیم عمل کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کیا اور یہ وہ لوگ ہیں، جو حیربیار مری کے قریبی ساتھی اور اس کے گن گانے والے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے لندن میں چینی ایمبیسی کے باہر جب حیربیار مری بلوچستان کا بیرک اپنے ہاتھوں میں اٹھایا، تو انہوں نے حیر بیار کو ایک ایسا ہیرو، کرشماتی، آفاقی لیڈر بناکر پیش کیا تھا کہ جیسے اس نے بلوچستان آزاد کرالیا ہو اور اس سے زیادہ بہادر اور لائق بلوچوں میں اور کوئی وجود نہیں رکھتا ہے۔ لیکن شہید ریحان جان کے عظیم عمل کے بعد جسطرح لندن ہائی کمان کے ترجمان آزاد بلوچ نے اس عمل سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حیر بیار مری کو بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین سے کوئی غرض نہیں، اسکا اپنا ایک مائینڈ سیٹ ہے۔ وہ بلوچستان، بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کے نام پر کاروبار کررہا ہے، اگر ہم ماضی کو کچھ باریک بینی سے دیکھیں تو بلوچ آزادی کی تحریک کو جتنا نقصان حیر بیار مری نے دیا ہے کسی اور نے نہیں اس کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب بلوچستان کے ایک مسلح تنظیم بلوچ لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ نے اقوام متحدہ کے ایک اہلکار جان سولیکی کو اغوا کیا تھا۔

اس مسلح تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ ہم جان سولیکی (جو اقوام متحدہ کے ایک اہلکار تھے) کو اغوا کرکے اس کے ذریعے بلوچستان میں پاکستان آرمی جو ظلم کررہی ہے اور بلوچ آزادی کی تحریک کو دنیا کے سامنے لائینگے، بلوچ لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ کے سربراہ شہید ایڈووکیٹ امیر بخش لانگو سگار بلوچ تھے۔ انہوں نے یہ کام ایک پلانگ اور منظم طریقے سے سرانجام دیا تھا اور اسکے آگے کا لائحہ عمل بھی بنایا تھا، انکا طریقہ کار یہ تھا کہ جب یہ کام کامیاب ہوجائےگا تو ہم خود اقوام متحدہ کے نمائندوں سے بات کرینگے اور انکے سامنے اپنے مطالبات رکھیں گے۔ جب انہوں نے جان سولیکی کو اغوا کرلیا تو حیربیار مری نے یہ تجویز سامنے رکھی کہ ہم ایک کمیٹی بنائینگے اور اس کمیٹی کا سربراہ میں(حیربیار) ہونگا اور پاکستان میں بلوچ نیشنل فرنٹ اس کمیٹی کا حصہ ہوگا۔

حیربیار کی اس تجویز کی شہید سگار نے مخالفت کی اور کہا تھا کے اس طرح نہ تو ہماری بات مانی جائیگی اور دوسری جانب ہمارے سرفیس کی سیاست کرنے والے رہنماؤں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائینگی اور آپ جو B N F کو اس کمیٹی کا حصہ بنا رہے ہو، اس سے آنے والے وقت میں B N F میں شامل سب تنظیموں پر ایک وبال آئیگا، انہیں مسلح تنظیموں سے جوڑا جائیگا اور انکے لیئے سرفیس سیاست کرنا مشکل ہوجائیگا لیکن حیر بیار نہیں مانے تو شہید سگار خود کراچی آگئے اور اس نے شہید حاجی (اصل نام معلوم نہیں سب دوست انہیں حاجی کے نام سے جانتے تھے) جو مرحوم نواب خیر بخش مری کے قریبی لوگوں میں سے تھے ان سے 3 مرتبہ ملاقات کی اور نواب خیر بخش مری کو پیغام بجھوایا کہ جو حیر بیار کر رہا ہے، وہ بلوچ تحریک اور تحریک سے منسلک بہت سارے لوگوں کےلئے نقصاندہ ہے لیکن نواب صاحب بھی شاید حیربیار کو سمجھا نہیں سکے۔ اسکا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد نواب خیر بخش مری اور حیر بیار مری کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوا تھا اور پھر مرحوم نواب صاحب کے جو خاص لوگ تھے انہوں نے حیر بیار سے اپنا راستہ الگ کرکے یونائیٹڈ بلوچ آرمی U B A کی بنیاد رکھی۔ جسے نواب صاحب کی بھرپور حمایت اور تائید حاصل تھی۔ جب شہید سگار مایوس ہو گئے تو انہوں نے شہید واجہ غلام محمد کے ایک قریبی ساتھی جو شہید سگار کا بھی دوست تھا، اس سے کہا کہ آپ شہید واجہ کو منع کردیں کے وہ جان سولیکی والے کمیٹی کا حصہ نہ بنیں اور B N F کو بھی اس کمیٹی سے دور رکھیں۔

شہید امیر بخش نے شہید واجہ غلام محمد کے ساتھی سے یہ بھی کہا کہ اس سے غلام محمد کی زندگی کو خطرہ ہوسکتاہے، پاکستان جان بوجھ کر شہید غلام محمد اور دیگر کمیٹی کے ممبران اور سیاسی لیڈران کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کرےگا تاکہ بدلے میں جذبات میں ہم جان سولیکی کو مار دیں اور اس سے پاکستان کو بلوچ آزادی کی تحریک کو دنیا کے سامنے دہشت گرد تحریک کے طور پر متعارف کرانے کا جواز فراہم ہوجائے گا۔ اس دوست نے شہید سگار سے کہا میں آپکا پیغام تو واجہ غلام محمد تک پہنچا دونگا لیکن انہیں منع کس طرح کرپاونگا؟ تو شہید سگار نے کہا میں ان کو فون نہیں کرسکتا ہوں (کیونکہ اس وقت فون کے علاوہ اور کوئی ذرائع نہیں تھا) اور اب نہ وہ اور نہ میں اس حالت میں ہیں کہ کہیں مل سکیں، آپ میرا یہ پیغام ان تک ضرور پہنچا دینا۔ اس دوست نے شہید واجہ غلام محمد کو تربت جانے سے دو دن قبل شہید سگار کا پیغام دیا تھا، دو دن بعد یعنی تین اپریل دو ہزار نو کو شہید واجہ غلام محمد پیشی کے سلسلے میں تربت گئے ہوئے تھے، جہاں ایڈوکیٹ کچکول علی کے دفتر سے پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے شہید واجہ غلام محمد، شہید واجہ لالہ منیر اور شہید واجہ شیر محمد کو دن دہاڑے اٹھاکر غائب کردیاتھا اور کچھ دن بعد نو اپریل کو انکی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کے مقام پر پھینک دیا تھا۔

دوسری جانب بلوچ لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ نے جان سولیکی کو چار اپریل کو ہی رہا کردیا تھا۔ شہید سگار کے تمام خدشات درست ثابت ہوئے کہ حیر بیار غلام محمد اور دوستوں کو مروائیگا اسکے بعد شہید سگار بھی بہت دلبرداشتہ ہوئے، شہید سگار اور انکے دوست جان گئے تھے کہ حیر بیار مری بلوچ آزادی کی تحریک کو اپنی مرضی، منشاء اور اپنی خواہشات کے مطابق چلانا چاہتے ہیں اسکی نظروں میں اداروں اور اصولوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ حیر بیار مری کے وہ لوگ جو شہید سگار کی اس تصویر کو جس میں وہ حیر بیار مری کے ساتھ کھڑے ہیں اسے سوشل میڈیا میں دیتے رہتے ہیں، انہوں نے کبھی حیر بیار کے ماضی اور حال کے کردار کا جائزہ لیا ہے؟ کبھی حیربیار سے پوچھا کے کیوں BNF کو ایک مسلح تنظیم کے انتہائی حساس معاملے میں فریق بنایاگیا؟ کبھی شہدائے مرگاپ کی شہادت اور اس واقعے میں کردار ادا کرنے والے لاپتہ افراد کے بابت سوال کرنے کی جسارت کی ہے؟

جو شخص خود کو بلوچ قوم کا تن تہنا لیڈر سمجھتا ہو، ان کے اعمال یہ ہوں کے انکے درباری شہید ریحان جان کی عظیم قربانیوں اور استاد اسلم کے خلوص اور جذبے اور ماں یاسمین کے بےباکی اور دلیری کا مذاق اڑاتے ہیں اور واجہ ہائی کمان اس پر خوش ہوتے ہوں، نام نہاد لندنی ترجمان آزاد بلوچ کے بیانات اور انکے ساتھیوں کے حرکات پاکستان اور چین کو خوش کرنے کےلیئے شہید ریحان جان کی قربانی سے لاتعلقی کا اعلان ایک بہت ہی سنجیدہ اور حل طلب مسئلے کو جنم دےچکی ہے۔ بلوچ قوم کو اب مزید دھوکہ دہی یا اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا، شہید ریحان کے کردار کو داغ دار کرنے کی ناکام کوشش کرنے والا ہائی کمان، حیربیار مری اور اس کے مریدوں کو یقیناً قومی عدالت میں پیش ہونا پڑیگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔