ٹی ٹی پی و حزب الحرار کو غیر فعال بنا دیا ـ سی ٹی ڈی کا دعویٰ

238

انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پنجاب نے  تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حزب الحرار (ایچ یو اے) کے نیٹ ورک کو غیر فعال کرنے کا دعویٰ کردیا۔

سیکیورٹی اداروں نے خفیہ ایجنسی کی بس پر خود کش حملہ کرنے والے مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے بڑے حادثے سے بچالیا۔

میڈیا زرائع کے سی ٹی ڈی گذشتہ 4 ماہ سے زائد نیٹ ورک کی نقل و حرکت کا جائزہ لے رہا تھا لیکن اس دوران شدت پسند شہریوں اور سیکیورٹی اداروں پر 2 حملے کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

حکام نے کہا کہ ’سی ٹی ڈی کی تاریخ میں سب سے بڑا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (آئی بی او) تھا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا‘۔

سی ٹی ڈی راولپنڈی ٹیم نے خود کش حملہ آوار رضوان اللہ سمیت 5 شدت پسندوں کو گرفتار کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ شدت پسندوں کی جانب سے اٹک میں این ڈی سی (نیشنل ڈیفنس کامپلکس) کے انجنیئرز پر حملے کے بعد سی ٹی ڈی نے رواں برس 3 مئی سے کالعدم تنظیم کی نقل و حرکت کی نگرانی شروع کردی تھی۔

سی ٹی ڈی نے این ڈی سی حملے کیس کی تحقیقات شروع کی اور اس ضمن میں اہم شواہد بھی اکٹھے کیے۔

انہوں نے تبایا کہ ’این ڈی سی پر حملے کے شواہد سے نیٹ ورک کے ملوث ہونے کا علم ہوا تو اسی دوران انہوں نے نوشیرہ میں 17 مئی کو ایف سی اہلکاروں پر ایک اور خود کش حملہ کیا‘۔

حملے میں ایف سی اہلکاروں کے علاوہ شہری بھی ہلاک ہوئے تھے اور نوشیرہ حملے میں بھی اسی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔

جس کے بعد سی ٹی ڈی نے پنجاب، خیبرپختونخوا اور افغانستان تک پھیلے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کے لیے کام شروع کیا۔

اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ مشتبہ افراد ٹرک میں بیٹھ کر راولپنڈی میں داخل ہو کر پاکستانی خفیہ اداروں کی بس کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ شدت پسندوں کے قبضے سے 2 خود کش جیکٹس، 4 ہینڈ گرنیڈ، دھماکاخیز مواد، وائرز، 4 پستول اور متعدد گولیاں برآمد کرلی گئی۔

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ خفیہ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ افراد نئی شدت پسند تنظیم حزب الحرار سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مہمند ایجنسی میں جماعت الحرار کے چیف عمر خالد خراسانی سے اختلاف کے بعد مکرم شاہ مہمند نے علیحدہ گروپ بنا لیا تھا‘۔

مہمند ایجنسی کا رہائشی عمران خراسانی عرف طاہر حزب الحرار کا اہم کمانڈر بن کر ابھرا تھا۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ عمران نے افغانستان سے بیٹھ کر پاکستان میں حملے کے منصوبےبنائے۔

عمران نے مہمند ایجنسی کے مستقل رہائشی شیرحسن کو حملے کے لیے منتخب کیا، اس وقت دارالاسلام کالونی (اٹک) میں رعاضی رہائش اختیار کیے ہوا تھا اور اس نے ہی این ڈی ایس ملازمین کے بس کی نشاندہی کی۔

شیر حسن نے بس کی ویڈیو بنا کر عمران خرسانی کو افغانستان ارسال کی۔

جس کے بعد افغانستان سے خود کش جیکٹس اٹک 14 اپریل کو بذریعہ ٹرک روانہ کی گئی، ٹرک کا مالک ملک جان اور اس کا بھائی کامل تھا۔

شیر حسن نے اپنی ساتھی محمد کے ہمراہ جیکٹس وصول کیا اور اسے پہلے ثناء اللہ کے گھر رکھا اور اگلے ہی دن عدنان کے گھر منتقل کردی گئیں۔

تین دن بعد حملے کی پلاننگ کی گئی اور اس مقصد کے لیے محمد خود کش حملے کے لیے خالد عرف صدام کو اٹک لے کر آیا۔

خود کش حملہ آوار افغانستان سے طورخم بارڈر کے راستے سے داخل ہوا اور عدنان کے گھر رہائش اختیار کی۔

2 مئی کو تمام دہشت گردوں نے این دی ایس کی بس کی نگرانی کی اور اگلے دن شیر حسن اور محمد نے صدام کو خودکش جیکٹ پہنائی۔

انہوں نے صدام کو ہینڈ گرنیڈ اور پستول بھی فراہم کی اور خود کش جیکٹ پر ’محمد بن قاسم‘ تحریر کیا اور بعدازاں صدام کے ساتھ تصاویر بھی بنوائی۔

اس طرح صدام حملہ کرنے میں کامیاب رہا اور بعدازاں دوسرے حملے کے لیے طورخم سے ایک اور خود کش حملہ آوار قاری عثمان داخل ہوا۔

شیر اور محمد قاری عثمان کو نوشیرہ لے گئے ایک مسجد میں رہائش کرائی اور 17 مئی کو ایف سی اہلکاروں پر حملہ کیا۔

تاہم سی ٹی ڈی نے خفیہ ایجنسی کے افسران کی بس پر حملے کی تیاری کرتے وقت دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق رضوان اللہ افغانستان سے آیا تھا جو راولپنڈی آنے سے قبل پشاور کے نواحی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔