میں ہی تو عظیم ہوں ۔ سمیر جیئند بلوچ

318

میں ہی تو عظیم ہوں

تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان جب سے پاکستانی نو آبادیات کی بھنور میں پھنسا ہے، اس دن سے قابض اپنے قبضے کو طول دینے، اسکے معدنی وسائل لوٹنے کیلئے نیچ حرکتیں کرتا چلا آرہاہے، ویسے ہر قابض ملک جب کسی علاقے کو نو آبادیات میں تبدیل کرتاہے تو اسکی کوشش ہوتی ہے کہ اس سماج کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے۔ وہ پہلے غلام قوم کا زبان، پھر رسم ورواج، کلچر پوشاک حتیٰ کہ وہ سب کچھ مٹانے کے چکر میں رہتے ہیں تاکہ اس قوم کے وجود کو زندہ رکھنے والے تمام شواہد مٹ جائیں اور وہ پھر اپنے وجود کو برقراراور زندہ رکھنے کا معمولی احساس بھی نہ کر پائے۔ ان سب کے باوجود پاکستان کے برعکس دوسرے قابض ہاتھی کی طرح اپنے دانت اپنے نو آبادیات کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں مگرغلام ابن غلام یہ تک کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ وہ بلوچ کامندرجہ بالا چیزیں مٹانے کے علاوہ اسکا پہلا وار اور یہ کوشش ہوتاہے کہ اس قوم میں سب سے پہلے اپنی برائیاں اور بے حیائی داخل کی جائے۔ اس کے وسعت پانے کیلئے اس علاقہ میں پولیس اسٹیشن کھول دیتاہے، اگر پولیس ممکن نہ ہواتو ناپاک ایف سی اور آرمی کے ذریعے وہاں مختلف برائی کے اڈے قائم کردیتاہے۔ جب یہ برائی کے بیج بودیئے تو گویا وہ ایک عالی شان کارخانہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس فیکٹری کے شروع میں قحبہ خانہ اپنا مقدس کام شروع کردیتاہے، اس کے بعد نشہ آور اجزاء، دیسی شراب، بھنگ، چرس، تریاک، ہیروین اور کرسٹل جیسے انمول خزانے سے کارخانے کو بھر دیتاہے، سیمپل اور نمائش کیلئے جوئے جیسے نیک کام کو شروع کردیتاہے۔ جب یہ نمائش کے قابل ہوگیا تو چوری کے سائن بورڈ آویزاں کرکے اسے انسان دشمن مدرسے کی منڈی میں پہنچا دیتا ہے۔ یہاں سے مختلف سماج دوست زھر اگلنے والے تھوک فروش اپنے بساط اور طاقت کے مطابق اسے بلوچ اور انکے وطن میں شروع شروع میں مفت اور سستے بانٹتے ہیں، اس کے بعد جب یقین ہوچلا کہ وہ بلکل اس چیز کے مکمل عادی بن گئے، توپھر قیمت اپنے اصلی شکل میں نمودار ہوتے ہیں کیونکہ اب گاہک بلکل پکے ہوجاتے ہیں۔ یعنی ہر وہ کام کیلئے با اعتبار جس کا اس سماج نے پہلے تصور ہی نہیں کیا ہوگا۔ اب شہر گاؤں کے تمام چھوٹے بڑے قصبوں میں منہ مانگے دام پر بک رہے ہوتے ہیں۔

اس کی ایک جھلک بلوچستان کے شورش زدہ علاقے کیچ کولواہ میں نوے کی دہائی میں اپنے عروج کو چھونے لگا۔ یہاں دنیا کے بڑے ڈان جیسے کہ امام بھیل نے کولواہ پر رائج شروع کردیا، گھر گھر قابض کے اس کار نیک کو پہنچانے کی تگ دو انتہائی ایمانداری اور ملنساری سے شروع کی، یہاں یورپ طرز پر محل تعمیر کی، مگر دو ہزار میں عظیم عرف چاکرجیسے ہزاروں بلوچ آزادی پسند وں نے اس نیک کام میں مداخلت کرکے اسے پچھاڑدیا، پھر اس کام کو آگے بڑھانے کیلئے پاک آرمی امام بھیل کی کمک کو پہنچی، انھوں نے اس محل کے علاوہ کولواہ کے چھوٹے بڑے گاؤں اور قصبوں میں کیمپ اور چوکیاں ،حتیٰ کہ کولواہ میں ننھے منے بیس خاندانوں پر مشتمل کلی ’’ پارگ‘‘ کو بھی نہیں بخشا، انھیں خدشہ لاحق ہواکہ نہ صرف سرکارکے اس کام بلکہ بلوچستان کی آزادی کی جہد ہی یہیں سے اٹھ رہی ہے کو اپنے قبضہ میں لے لیا، جہاں آرمی داد کے مستحق ہے کیونکہ یہاں اس کلی سے شاید متعدد بار شہید عظیم جان کا گزررہا ہوگا۔

امام بھیل کے محل کے بارے میں علاقائی باشندوں کا کہنا ہے کہ جب یہ محل تعمیر ہوا تو اسکے تمام تعمیر کنندہ راز تھے، کام تمام کرنے کے بعد محل میں خود بھی راز بن گئے۔ سرمچاروں کے قدم رکھنے سے پہلے امام بھیل نے اپنا منہ کلنک سے دل کھول کر چمکانے کی بڑی کوشش کی، مگر ہر فرعون کیلئے موسی ٰ کا آنا ضروری ہے۔ اسی طرح کامریڈ عظیم عرف چاکر جیسے سرمچاروں نے موسیٰ بن کر اس لعنت کو مٹانے کیلئے سرپر کفن باندھے، امام بھیل اور اس کے حواری پریشان ہونے لگے کہ ہم نے اس علاقے میں ہر جگہ اس لیئے سکول خالص ریت کے تعمیر کروائے کہ آئندہ آرمی کو رہائش میں تنگی محسوس نہ رہے،( کوئی لکھ پڑھ کر ہمارا ہاتھ نہ روکے) مگر یہاں ان تمام اقدامات کے باوجود کام الٹ ہوا، نہ صرف اسکے اور سرکار کے خواب چکنا چور ہوئے، جب ہر جھگی سے عظیم جیسے بلوچ سرمچار نمودار ہوگئے۔ بلآخر آرمی مجبور ہوکر گذشتہ ایک سال سے نہ صرف امام بھیل کے محل بلکہ پارگ جیسے چھوٹے محلہ میں بھی چوکی کھولنے پر مجبور ہو گئی ۔

ان کا خیال تھاکہ پھروہ کولواہ کے باسیوں سے کام لیں گے، جو امام بھیل نے نوے کی دھائی میں عروج پر پہنچایا تھا۔ اب فوج کولواہ اور پارگ میں ایڑیاں رگڑ ہی رہا تھا کہ ادھر زامران سے خبر آئی کہ کولواہ بلوچستان کا عظیم فرزند زامران کے سنگلاخ پہاڑوں میں اپنا قومی فریضہ نبھاتے ہوئے سانپ کے ڈسنے سے شہادت کے رتبہ پر پہنچ گئے ہیں۔ اس خبر کے پہنچنے پر جہاں کولواہ کی وادی اس ننھے دبلے پتلے شہزادے کو ناز سے یاد کررہا ہوگا، وہاں بلوچ سرمچار بھی اس قومی سپوت پر نازاں ہونگے کہ عظیم جان واقعی ہم سے بازی لیکر عظیم بن کر امر ہوا۔ لیکن اپنے دوستوں کے کاندھوں پر نہ صرف کولواہ بلکہ پوری بلوچ وطن کی ذمہ داری لاد کر اپنا قومی فرض نبھا گیا۔ اللہ ہر بلوچ سرمچار کو اس طرح عظیم عرف چاکر جیسا، صبر، برداشت عطا کرے کیونکہ راقم نے خوش قسمتی سے دو ماہ قبل ایک ہفتہ ان کے ہمراہ داری میں سفر دوران گذارا، جہاں انھوں نے قدم قدم پر اس عظیم ہستی کو ہر وہ مشکل فرض ہنسی مذاق میں نبھا تے پایا، جہاں اس وقت انکے برداشت پر ناز تھا، مگر آج وہ ثابت قدمی سے امر ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ناز کرنے پر مجور کردیا کہ میں ہی تو عظیم ہوں۔