ایران کے وزیر مواصلات محمد جواد آذری جہرمی نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کے صوبے بلوچستان کے 95% دیہات لینڈ لائن فون، موبائل فون اور انٹرنیٹ کنکشن سے خالی ہیں۔ جہرمی کے مطابق ٹیلی فون اور انٹرنیٹ نہ ہونے کے سبب بلوچستان کے 5000 کے قریب دیہات کا بیرونی دنیا کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں ہے۔
ایرانی وزیر نے مزید بتایا کہ اس سنی اکثریت صوبے میں سڑکوں کی مجموعی لمبائی 4700 کلومیٹر ہے۔ اس میں سے 1400 کلومیٹر سے زیادہ راستوں پر رابطے کی سہولت موجود نہیں لہذا یہاں پیش آنے والے کسی بھی ٹریفک حادثے کا اعلان نہیں ہو سکتا۔
ایران کے دیگر سرحدی صوبوں مثلا کردوں اور عربوں کی طرح بلوچستان بھی محرومی اور کمزور انفرا اسٹرکچر کا شکار ہے۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان میں پانی کے ایک گڑھے میں چار لڑکیوں کے ڈوب جانے کی خبر نے بلوچ شہریوں کو چراغ پا کر دیا۔ یہ لڑکیاں گڑھے سے پینے کا پانی نکال کر اپنے گھروں کو لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
چند روز قبل بلوچستان صوبے میں زابل شہر کے ڈپٹی کمشنر کی ایک وڈیو گردش میں آئی تھی جس میں روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ بلوچ بچوں کو بھی جینے کا حق حاصل ہے۔ عہدے دار کے مطابق ریت کے طوفانوں نے اس علاقے میں زندگی کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔
بلوچستان صوبہ جس کو ایران “سیستان اور بلوچستان” کا نام دیتا ہے، یہ ملک کے جنوب مشرق میں پاکستان کی سرحد کے متوازی واقع ہے۔ یہاں بلوچوں کی اکثریت سنی ہے جو ایرانی حکام پر نسلی اور مسلکی امتیاز کا الزام عائد کرتے ہیں۔