ماضی کی عفریت سے چھٹکارہ پائیں، کیسے؟ ۔ قاضی ریحان

456

ماضی کی عفریت سے چھٹکارہ پائیں، کیسے؟

قاضی ریحان

دی بلوچستان پوسٹ 

قلمی ناموں سے لکھنے کا فیشن پھر زوروں سے ہے، کچھ مضامین نظرگزار ہوئے ان کے مندرجات پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں مگر حالات کے گرداب میں طوالت مضمون کا متحمل نہیں۔

سبحان اللہ، اللہ کرے زور قلم کچھ اور زیادہ، یہ پڑھنے کے بعد دل کی اتھا گہرائیوں سے نکلنے والا رسمی جملہ۔ غضب لکھتے ہیں لکھنے والے۔عصر حاضر میں اگر فروغ اردو کا کوئی ایوارڈ دیا جاتا ہے تو اس پر سب سے زیادہ حق ہم بلوچوں کا ہے۔ اس طرح کی شستہ اردو پڑھ کر جی باغ باغ ہوجاتا ہے۔ ہر لفظ آپ ہی تصدیق بالتصویر کیئے دیتا ہے کہ بلوچ قلمکار کتابیں چاٹ رہے ہیں، مارکسی ادبیات کو گھول گھول کر پینے کے بعد اب ہم علم نفسیات پر کتابیں ہضم کررہے ہیں۔ سارے اصلاحات برقی قرطاس پر نقل ہوکر علم کی شمع روشن کررہے ہیں تو پچھلے دنوں ایک عالمی تنظیم کے رپورٹ جس میں کہا گیا تھاکہ آدھا بلوچستان( بشمول پاکستانی انتظامی بلوچستان کی مقبوضہ افغان پٹی ) ناخواندہ ہے، اگر اب افغان پٹی کو الگ کیا جائے تو ستر فیصد بلوچستان ناخواندہ ہے، مگرہماری اردو دانی کو دیکھ کر اس رپورٹ کی صحت پر شک گزرتا ہے۔

کسی نے پچھلے دنوں یہ حق کہی کہ یہ الفاظ دھواں ہیں، جسے ہم چند ہی اپنے آنکھوں کے راستے خیالات میں کھینچ لیتے ہیں، کچھ جملے پڑھ کر من ہی من شانت کچھ پڑھ کر اشانت ہوجاتے ہیں، چند سو آپ ہی دانشور آپ ہی عوام، یہ سَچ ہے۔ باقی میرے گھر کے نکڑ کی دکاندار کو کک پتا کہ آج اس کے بغلی دانشور نے غضب کا آرٹیکل لکھا ہے، حضور! دانشور کی زبان کو لکنت لگتی ہے ان سے دو لفظ بولنے کو، شعور سے عاری جو ٹہرا، دانشور۔

مجھے بہت سے مندرجات سے اتفاق ہے، جو سمیرجیئند نے لکھا یا اوتان بلوچ نے یا برزکوھی صاحب لکھتے ہیں مگر سب سے بڑا اعتراض یہ کہ یہ سب آپ کیوں چلمن کے پیچھے لکھ رہے ہیں، پردے کے پیچھے یہ ادائیں دکھا کر کسے لبھایا یا کسے ڈرایا جارہا ہے؟ اگر آپ حضرات اپنے ہی لوگوں کے سامنے اپنا منہ لے کر کلمتہ الحق کہنے سے گھبراتے ہیں تو کل جن پر اداروں پر اجارہ داری کا الزام ہے، ان کے سامنے کیا کہہ پائیں گے؟

مجھے ایک ذمہ دارترین، میرے پیارے بھائی (ان کی تنظیم اورکردار پر وارے جاؤں، بے شمار محبتیں ان کے لیے ) نے ایک مضمون ارسال کیا جس میں انہوں نے کھل کر خودتنقیدی کی ہے، ان کو اس رائے کی بنیاد پر اس کی اشاعت سے روکا گیا کہ تعلقات متاثر ہوں گے۔ بھائی قلمی ناموں کے لکھاریوں! جب لکھنے سے تعلقات متاثر ہوتے ہیں تو بولنے، احتساب کرنے اور ان ذمہ داروں کو گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑنے سے کیا کچھ ہوسکتا ہے؟

یہ وہ موضوع ہے جس پر میں دم تحریر نہیں لکھنا چاہتا کیوں کہ میں نے دوہزار نو تا دوہزار دس کے درمیان اس پر کافی لکھا ہے، تلخ تنقید کی ہے موجودہ صورتحال کی پیشن گوئی کہ اگر ہمارے یہ چلن رہے تو ہماری تنظیمیں تنکا تنکا بکھر جائیں گی، وہی ہوا، اب؟

یہیں پر آکر وائے وائے، وایلا مَچانے سے کام نہیں بنتا۔ پیچھے مڑ کر اگلے پچھلے لیڈروں کو سلواتیں سنانے سے بگڑے سنورنے سے رہے۔ جیسی روح ویسے فرشتے، لیڈرز سے زیادہ ان لیڈران کو بھگوان بنانے والے کیڈرز سب سے زیادہ قصوروار ہیں۔ کل آپ کے پاس بھی وہ آپشن موجود تھے، جس پر آپ نے چلنے کی بجائے موجودہ آپشن کو اختیار کیا، اب بدقسمتی سے آپ کے پاس آپشن محدود ہیں تو جنگ کے بعد یاد آنے والا مکا سب سے پہلے اپنے ہی گردن پر رسید کیجئے۔ اپنے کرتوت آپ ھیربیار اور اللہ نذر کے نام کرکے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ ہم اور آپ میں سے بہت سو نے اللہ نذر، ھیربیار اور براھمدگ کو آنکھ، کان بن کر خوش گمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے کے لیے دامے درمے سخنے، قدمے ”شاندار، جاندار اور کامیاب” کردار ادا کیا۔

اب پچھلے دنوں نظرگزار ہونے والے مضامین کے اہم نکات پر ۔

۱ ۔ بی این ایم، حق خودارادیت:

بی این ایم، نیشنل پارٹی کے سیاسی نظریات کے برخلاف وجود میں آئی۔ بی این ایم نے برملا کہا کہ وہ بلوچ سرمچاروں کی کھل کر حمایت کرتی ہے اور آزادی جنگ کے بغیر ممکن نہیں۔ نیشنل پارٹی آزادی بلکہ بلوچ قوم دوست سیاست سے بھی منحرف ہوچکی تھی۔ بی این ایم کو شروع میں نیشنل پارٹی کے متضادتصور کے طور پر ہی پیش کیا گیا، اصل میں یہ درست بھی تھا ماضی کے دوست ایک دورائے پر آکر تقسیم ہوچکے تھے۔

حق خودارادیت ایک متنازعہ اصطلاح ہے، یہ جدوجہد آزادی کا ضد ہرگز نہیں بلکہ گہرائی میں اس کا مطلب پرامن طور پر حصول آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہی ہے۔ لیکن بی این پی جیسی پارلیمانی جماعتوں نے اس اصطلاح کو استعمال کرکے اس کی صورت بگاڑ دی۔ اس لیے بی این ایم نے اپنے آئین میں واضح طور پر “آزادی” کا لفظ شامل کیا اور ساتھ ہی بلوچ سرمچاروں کی حمایت بھی آئین میں مندرج ہے۔

پارٹی دراصل پرامن اور مسلح جدوجہد کے درمیان سینڈوچ بن چکی تھی، جنگ اور امن کو ساتھ ساتھ چلنے کا ایک تجربہ کیا جارہا تھا۔ اس وقت بھی پارٹی کے اندر اس سے مختلف رائے موجود تھی لیکن وہ دوستوں کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ توازن رکھنے پر سب کو اتفاق تھا لیڈرشپ اس میں ناکام ہوئی۔

مقصد یہ کہ حق خودارادیت آزادی کا ضد نہیں ماضی میں بی این ایم، اس کو سلوگن بناکر بھی سنجیدگی سے اپنی تحریک آگے بڑھاسکتی تھی لیکن کھینچا تانی کا ایک ماحول تھا، پارٹی اداروں پر مختلف عناصر مسلط تھے، جس نے چیزوں کی شکلیں بگاڑ دیں اور بی این ایم کے آئین میں بھی یہ متنازعہ سمجھ کر نکال دیا گیا۔

۲۔بی این ایم، قومی پارٹی؟

کیا بلا ہے یہ قومی پارٹی؟ یعنی قوم کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول؟ جس میں مختلف الخیال لوگ ایک قومی ایجنڈہ کے تحت شامل ہوں۔

بالکل شروع میں بی این ایم کو اسی طرح چلانے کی کوشش کی۔ بی این ایم کے موٹو کو قومی مفاد کے تحت “بلوچ گلزمین، بلوچ مَڈی، بلوچ آزادی” رکھا گیا، یعنی ہماری جدوجہد کا محور ”بلوچ ” تھا۔ وہ بلوچ چاہے خود بھی دوسرے بلوچوں کوغلام بناکر رکھنے پر یقین رکھتا ہو۔ جو سماجی طور پر کرپٹ اور بلوچستان کی آزادی سے اپنے سماجی برتری کی چاہ رکھتا ہو، ملائیت، پیری مریدی اور سرداری بزگری پر یقین واثق رکھتا ہو، اس کے لیے بھی ہمارے دروازے کھلے تھے۔ جنسی تفریق اور فرسودہ خیالات کو ہم بلوچیت کے نام پر قبول کیئے ہوئے تھے، دوہزار آٹھ کی سیشن میں ایک بھی خاتون موجود نہ تھی۔ بلوچ خواتین پینل، پارٹی کی خواتین کی ممبری پر اپنا حق سمجھتی تھی اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہماری خواتین کو بلوچ خواتین پینل میں ہونا چاہئے۔ ہماری یہی دریادلی بلوچ بار کے لیے بھی تھی پارٹی کے تمام وکیل ممبران بلوچ بار میں شامل تھے اور دونوں مذکورہ تنظیمیں نظریاتی اور تنظیمی طور پر پارٹی اداروں کی گرفت سے آزاد تھے۔

لیکن رفتہ رفتہ ہم نے بہت کچھ سیکھا (اب اس سیکھ کو عام ورکرز تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم جن نالائقوں کی سپرد تھی، ہم تیس مارخانی آرٹیکل میں زمین و آسمان کو زیرزبرکرنے میں لگے ہوئے ہیں) ہم نے سب سے پہلے یہ سیکھا کہ اگر بلوچستان میں مڈی (ریسورسز / وسائل) نہ ہوں تو کیا ہمیں آزادی نہیں چاہئے؟

پھر یہ کہ آزادی کے بعد کا بلوچستان کیسا ہوگا، پاکستان اور ہندوستان جیسا، یا افغانستان اور ایران کی طرح جو ہمارے ہمسایے ہیں؟

تب بی این ایم کے نظریاتی خدوخال زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئے، موٹو بدلا ۔اب ہمارا نعرہ “انصاف، برابری اور آزادی ” ہے۔ ہم نے جانا کہ زمین کی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی اگر اس میں رہنے والے انسان شعوری اور جسمانی طور پر غلام ہوں۔ تب ہم نے اس بات کو اس ایک جملے میں لپیٹ کر اپنے فکری گرہ میں باندھ لیا کہ ” ہم انسانی آزادی کی بنیاد پر بلوچستان کی آزادی چاہتے ہیں” یہ ہمارے مندرجہ بالا موٹو ہی کی تشریح ہے اور اس کی تشریح یہ ہے کہ ہم نظریاتی طور پر آزادی چاہتے ہیں۔ قومی مفاد کا ہم نے نظریاتی معیار کی بنیاد پر تعین کرنا ہے، برابری، انصاف کے بغیر کس بات کی آزادی؟

ملائیت، سرداری، سرمایہ دارانہ اجارہ داری، رجیم اور ڈکٹیٹرشپ کے ہوتے ہوئے کیوں کر آزادی ممکن ہے؟

قوم میں مختلف نظریات کے لوگ ہوں گے، ملائیت اور فرسودہ سماجی روایات پر یقین کرنے والے بھی۔ قبائلیت اور زمین پر بیجا تصرف کو اپنا حق سمجھنے والے بھی، وراثت اور گواہی میں خواتین کو آدھا سمجھنے والے بھی مگر ایک نظریاتی پارٹی کے طور پر بی این ایم، ان سب کو اپنے اندر نہیں سموسکتی۔ بی این ایم جنسی تفریق پر یقین نہیں رکھتی تو سموراج جیسی سوچ لے کر کوئی بی این ایم جیسی پارٹی میں کیسے جگہ پاسکتا ہے؟

عرض یہ کہ بی این ایم انقلابی سمت پر گامزن پارٹی ہے، اسے انقلابی سوچ کو بلوچ سماج میں پروان چڑھانے کے لیے کام کرنا چاہئے۔ آزادی کے نکتے پر بی این ایم کسی بھی قومی اتحاد کا حصہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ پارٹی کے انقلابی نظریات کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

اب قومی پارٹی بہتر ہے یا انقلابی پارٹی؟ دراصل قومی پارٹی ہونے کا دعویٰ غلط ہے، عین اسی طرح کسی عسکری تنظیم کا بلوچ قومی فوج ہونے کا دعویٰ۔ ہم اپنے اپنے نظریاتی اور سیاسی طریقہ کار کے مطابق جداگانہ آئین کی بنیاد پر کام کررہے ہیں اور اپنے اپنے کارکردگی کی بنیاد پر قوم کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پروگرام ان کے مفاد میں سب سے بہترین ہیں۔

۳۔ بلوچ عوام کی ناخواندگی اور اب تعلیم اول جنگ بعد

اس بات پر میں یقین رکھتا ہوں کہ تعلیم اولین شرط ہے، کسی بھی تحریک کے لیے۔ لیکن ہم نے ماضی میں جب ہم اس پر کام کرسکتے تھے اس کے لیے پالیسی بناسکتے تھے کچھ نہیں کیا اور جنگ جنگ، کرتے رہے۔ اب ہمیں جنگی حالات کی مناسبت سے ہی فیصلے کرنے ہیں اب ماضی کی طرف پلٹنا کجا ہم پلٹ کر دیکھ بھی نہیں سکتے اگر ایسا کیا گیا تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

اب ہماری توجہ کا محور قومی جنگ کی کامیابی ہو اور اس کامیابی کو کیسے سمیٹا جائے، اس پر عملی اقدام کی طرف توجہ دینا چاہیئے۔

شطرنج کا کھیل سیاسی داؤپیچ کی طرح ہی ہے جہاں ایک بار کسی سمت آگے بڑھنےکا فیصلہ کرنے کے بعد واپسی کا راستہ مسدود ہوتا ہے، ہمیں بھی آگے کی طرف دیکھنا چاہیئے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔