غلام قوم کے ایک باشندے کی روداد
تحریر۔ خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں ہوں ایک غلام، مظلوم اور غریب، پہاڑوں میں رہنے والا بلوچ چرواہا، ہم اپنےغریبی کی دنیا میں کچھ بکریوں کے ساتھ اپنا وقت گذار رہے ہیں، ہم کو قابض اور اُن کے دلالوں سردار، نواب، میر، ٹکریوں نے اِتنا پسماندہ کر رکھا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیئے ایک جوڑہ جوتا بھی خرید نہیں سکتے۔ ننگے پاؤں اور پھٹے کپڑوں کے ساتھ اپنے غلامی کی دنیا سے بے خبر اور صبح کا کھانا و بکریوں کے دُودھ میں اپنا وقت گذارتے ہیں اور شام کو کبھی سوکھی روٹی ہوتا ہے تو کبھی نہیں ـ
افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے ہی بلوچ سردار و نوابوں نے اپنا غلام بناکر رکھا ہے، خود تو سامراج، دہشتگرد، قبضہ گیر اور انگریزوں کے بنائے جانے والے ایک کالونی کے غلام ہوکر بھی اپنے بے بس مظلوم قوم کی بیبسی کی ذرا بھی احساس نہیں ہے ان لوگوں کو اور ہمارے خون پسینے سے اپنا پیٹ پالتے ہیں، بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں، اچھے کپڑے اچھے جوتے پہین کر مہینگے مہینگے گاڑیوں میں گھومتے ہیں ـ
ہم غریب کیا کہیں، ان صاحبوں کو جو چودھری بن کر بلوچ کہتے ہیں اپنے آپ کو۔ کچھ سردار، نواب بلوچ قوم کے وسائل کو قبضہ گیر کے ساتھ ملکر بیچ رہے ہیں اور ملٹی نشنل کمپنیوں کے ساتھ ڈیلنگ کر کے بیرونی ممالک میں بیٹھ کر عیاشی کررہے ہیں ـ
ان لوگوں میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں ہے کہ اُسے اپنے قوم کی غلامی کا احساس ہو کچھ سردار، و نواب پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قوم کو جھوٹا آسرا دے کر لوٹ رہے ہیں، ہر کسی سے کچھ نہ کچھ لیتے ہیں، پیسہ، بکری وغیرہ اگر کسی نے پیسہ یا بکری دینے سے انکار کیا تو اُسے مارتے ہیں یا اُن کا مال ماویشی زبردستی لے جاتے ہیں۔ ہم تو بے بس اور مظلوم ہیں، ان ظالموں کے سامنے ہم سے ہر مہینے یہ لوگ ایک بکری لیتے ہیں اور اپنے مہمانوں کی دعوت الگ سےـ
کب تک ظالموں، ظلم کروگے؟ قوم کو جھوٹی تسلی دوگے؟ ہزاروں کی تعداد میں نوجون لاپتہ ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجون شہید ہورہے ہیں، کئی مظلوموں کی گھر جل رہے ہیں مائیں، بہنیں تشدد سہہ رہے ہیں، آج پورا بلوچستان جل رہا ہے پھر بھی تم لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہو اور کہتے ہو جی ہم لاپتہ بلوچوں کے لئے کچھ کررہے ہیں ـ
تم لوگوں سے کچھ بھی نہیں ہونے والا ہے، سوائے ظلم کے۔ ہم غلام تھے، بیبس تھے، اور مظلوم تھے لیکن اب نہیں ہیں کیونکہ ہم جاگ چکے ہیں وہ اور وقت تھا تم لوگ ہمارے علاقوں میں آکر پکنک کے بہانے ہمارے بکریوں و مال ماویشیوں کو لوٹ کر زبردستی اپنے شراب خوری کیلئے لے جاتے تھےـ
ہمارے علاقوں میں جب سے بلوچ جہد کار آئے، اُس وقت سے ہم کو اپنی منزل ملی۔ جب ہم نے بلوچ جہد کاروں کو دیکھا اور اُن سے ملے اُسی دن سے ہم جان گئے اگر بلوچ قوم کا کوئی وارث ہے، ہم جیسے مظلوموں کو سنبھالنے والا ہے، تو یہی لوگ ہیں، جو اپنے سرپہ کفن باندھ کر اپنے گھر، ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچے پڑھائی، نوکری وغیرہ سب کچھ چھوڑ کر بندوق اُٹھا کہ کوئی پہاڑوں میں تو کوئی شہروں میں اپنے وطن کا سچا سپاہی بنکر قوم اور وطن کےلیئے اپنے جان کی قربانی دے رہے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں اپنے وطن کے نوجوانون کو شہید ہوتے ہوئےـ
پوری دنیا میں انسانی حقوق کمیشن اور بلوچ قومی رہنماوں نے پورے عالم کے درد مندوں کو بتایا ہے کہ جس طرح افریقہ، لاطینی امریکہ، اور کیوبا میں سامراجی گماشتوں نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا، جس طرح عراق، افغانستان میں لاکھوں انسانوں کو قتل کیا گیا بالکل اسی طرح یہاں بلوچستان میں بھی ہر ماہ 25 سے 30 نوجوان غائب کر کے اُن کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جا رہیں ہیں۔
اکثر لاشوں اعضاء بریدہ ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کو مسخ کیا گیا ہوتا ہے اور ان سب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہیں بہت بے دردی اور بہیمانہ طریقے سے تشدد کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے بلکہ ان کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر تیز دھار آلے کے نشانات کے چیرے ملتے ہیں اور ڈرل مشینوں سے جسم میں سوراخ بھی کیئے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے وہ وحشیانہ عمل ان نوجوان سے کرتے رہے ہیں، انہوں نے وہی اذیت ناک طریقے ان نوجوان پر آزمائے ہیں، جو پوری دنیا میں امریکہ اور سی آئی اے اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں پر ڈالتی آرہی ہے۔
پہلے تو ان سردار، نوابوں کو ہم مجبوراً اپنا آقا مان رہے تھے، اب بلوچ نوجوانوں کی ان قربانیوں کو دیکھ کر ہمیں غلامی کا احساس ہو چکا ہے، جس غلام قوم کو غلامی کا احساس ہوتا ہے تو وہ غلام قوم بیبس و مجبور نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنا ملک اور اپنے قوم کی حفاظت خود کرسکتے ہیں ـ
جب کوئی قوم غلامی کی گہری نیند سے جاگتا ہے تو اُس قوم کی جاگ جانے کا واضح مثال ہمارے سامنے ہندوستان ہے، جب ہندوستانی قوم ذات پات، مذہب و مسلک کے جال سے نکل کر عظیم مہاتما گاندھی، شہید چندر شیکھر آزاد اور شہید بھگت سنگھ کے قیادت میں قابض گوروں کو بھگانے پر مجبور کردیا کیونکہ وہ جاگ گئے تھے انہیں اپنی غلامی کا احساس ہوگیا تھاـ
ایک وقت تھا تاج برطانیہ میں رات نہیں ہوتی تھی، گورے زمین کے اتنے بڑے حصے پر قابض تھے کہ اسکی سلطنت کے ایک کونے میں رات ہوتی تو دوسرے حصے میں دن کا وقت ہوتا مگر مقبوضہ مخلوق جاگ گئے اور تاج برطانیہ کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرکے اسکے قبضے کو توڑ کر اس کے قبضے سے درجنوں ممالک کو آزاد کردیاـ
ہندوستان کی طرح ہم ویت نام کا مثال لیتے ہیں، ویت نام میں شکست کے بعد امریکی شکست خوردہ فوج نے کہا تھا کہ اگر ہمارا واسطہ دنیا کی کسی بھی طاقت سے پڑی ہوتی تو ہم اس کو نیست و نابود کرتے مگر ہمارا واسطہ ایک قوم سے پڑا تھا جو ہمارے شکست کا سبب بنا ایک جاگتے، باشعور و متحد قوم کو شکست دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہےـ
ویت نام نے کتنے دشمنوں کو نیست و نابود کردیا امریکہ، فرانس، چین، جاپان اور برطانیہ جیسے طاقت کے نشے میں چور بدمست ہاتھیوں کو دھول چٹا دی کیونکہ وہ جاگ گئے تھے ان میں شعور آگیا تھاـ
جیسے کہ ڈاکٹر فیروز احمد کہتے ہیں کہ انسانی سماج اور اس دنیا میں رونما ہونے والے واقعات پوری دنیا کے بنی نوع انسان کے مشترکہ میراث ہیں ـ ہر وہ عظیم واقعہ یا تبدیلی، اور انقلاب جس خطے میں بھی انجام پذیر ہوں ـ اس خطے کی ساتھ ساتھ دنیا کو بھی لازماً متاثر کرتے ہیں گذشتہ صدی یعنی بیسویں صدی انقلابات ایجادات ترقی و کامرانی کے ساتھ ساتھ جنگوں غارت گردی اور تخریب کاری کی بھی صدی رہی ہے۔ گذشتہ صدی میں حضرت انسان نے بہت کچھ پایا بھی اور بہت کچھ کھویا بھی گذشتہ صدی کے واقعات و حادثات و انقلابات ترقی و تنزلی کے اثرات موجودہ صدی میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیںـ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں انسان اور اُس کی دنیا نے جو کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کی ہیں اسے اس ہزاروں سالوں نہیں کی تھی ـ
ساہنس، ادب و علم، سماجی و معاشرتی انقلابات و قومی آزادی کی تحریکوں کا عروج دو عظیم جنگوں فرانس، ہالینڈ، اسپین، اور پرتگال جیسے یورپی سامراجوں کی پسپائی اور اپنے زیر قبضہ نو آبادیات سے دستبرداری، نٸے ابھرتے ہوٸے امریکی سامراج کا جدید نوآبادیاتی واردات سویت یونین کی قیادت میں قومی آزادی تحریکوں کی مالی اور فوجی حمایت، امریکی اور یورپی سرمایہ دار ممالک کا رجعتی مذہبی جنونیوں اور اپنی پروردہ دلالی اور طفیلی حکمرانوں و ریاستوں کے ذریعے قومی آزادی اور انقلابی سامراجی ممالک کے درمیان سرد جنگ کا عروج ۔ افریقہ ایشیاء، لاطینی امریکہ، اور ہند چینی میں عوامی اور قومی آزادیوں کی تحریکوں کی کامیابیاں بیسویں صدی کے عظیم واقعات ہیں۔
یہی صدی بر اعظم افریقہ کی انگڑاٸی کی صدی ہے، یہی صدی تاریک افریقہ کی روشن صدی ہے۔ جب افریقی اقوام نے قبضہ گیروں کو عبرتناک شکستوں سے دو چار کیا، قومی آزادی کے تحریکات نے اور ان کے عظیم رہنماوں نے اپنے مظلوم اور غلام قوموں میں جذبہ حریت بیدار کرکے آزادی، اخوت، استقلال اور وقار کی لڑی میں پرو کر قوموں کو برادری میں سرخ رو کر دیاـ اسی بر اعظم افریقہ کا ایک اہم ملک انگولا بھی اپنے قاٸد و رہنما ڈاکٹر آگتیینیو نیتو اور اپنے عظیم پارٹی ایم، پی، ایل، اے کی جاں گسل گوریلا جدوجہد کی برکتوں سے آزادی سے ہمکنار ہوٸے۔ پرتگال کے زیر قبضہ یہ ملک انتہاٸی پسماندہ اور اس کے عوام غربت جہالت، بھوک، بیماری میں جکڑے ہوئے تھے ـ حالانکہ یہ ملک قدرتی وساٸل سے مالا مال اور اس کے زمین زراعت کے حوالے سے بہت زرخیز ہےـ
لیکن اس کے تمام وساٸل اور زمینوں پر قبضہ گیروں اور ان کے مقامی طفیلیوں کا تسلط تھا، پورے ملک پر ایک جابرانہ اور آمرانہ نظام مسلط کر دیا گیا تھا، سیاست تو دور کی بات حتیٰ تحریر و تقریب علم و ادب پر بھی مکمل پابندی تھی ـ اس گٹھن اور حبس زدہ ماحول کو انگولاٸی عوام کی عظیم پارٹی ایم، پی، ایل، اے نے1960 کی دہاٸی میں منظم گوریلا جنگ کے ذریعے توڑ دیا۔
کچھ ہی عرصے میں ایم، پی، ایل، اے نے اپنے گوریلا جنگ کے ذریٸعے انگولا کے ایک تہاٸی سے بھی زاٸد علاقوں کو آزاد کرایا ـ چونکہ ہر گوریلا جنگ کا مقصد آزاد علاقوں کا حصول و قیام ہوتا ہے، جس کے لٸے گوریلا موومنٹ اپنی تحریک کے شروع میں ہی کامیابی حاصل کر لیتی ہے ـ کیونکہ آزاد علاقوں کے بغیر کوٸی بھی گوریلا جنگ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ـ ان ہی آزاد علاقوں میں تحریک کی لیڈر شپ اپنا مرکزی ہیڈ کوارٹر قاٸم کرتے ہیں جیسا کہ ایم، پی، ایل، اے کی قیادت نے کیاـ اس کے علاوہ گوریلا جنگ کی نگرانی کے لٸے ایک منظم و متحد لیڈر شپ اور ایک واحد مدر پارٹی کا ہونا ضروری ہےـ انگولا میں آگتیینیو نیتو اور اس کے رفقاء کی قیادت نے ایم، پی، ایل، اے جیسی مدر پارٹی کے ذریعے تحریک کو کامیابی دلاٸی اور چند سالوں کے اندر انگولا عوام نے قبضہ گیروں سے اپنے ملک ١پاک کر کہ آزادی حاصل کرلی ـ
کوٸی بھی حقیقی انقلابی یا قومی آزادی کی تنظیم اس بات کا انتظار نہیں کرتی کہ انقلاب یا آزادی کے بعد قومی اداروں کو تشکیل دینگے یا نظام حکومت بناٸیں گے، یہ سوچ ہی غیر سنجیدہ لغو بکواس و جاہلانہ ہےـ بلکہ جنگ کے دوران اور جاری تحریک کے دوران ہی اداروں کا قیام عمل میں لاٸے جاتے ہیں ـ ایم، پی، ایل، اے نے بھی جاری تحریک کے دوران اپنے قومی ادارے تشکیل دیٸے ـ قومی آزادی کی جنگ میں ایک منظم متحد لیڈر شپ ایک واحد مادر پارٹی جو گوریلا جنگ کے ساتھ سارے امور کی نگرانی کرے اور آزاد علاقوں کا حصول و قیام کیونکہ آزاد علاقوں کے بغیر کوٸی بھی گوریلا جنگ حقیقی قومی و انقلابی جنگ نہیں ہو سکتی ـ بلکہ ایک انتشار مسلح گروہ بن جاتی ہے جو اپنی قوم کو کشت و خون افراتفری انتشار اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی اور قوم آہستہ آہستہ تحریک سے بد ذن ہو کر کنارہ کش ہو جاتی ہےاور مسلح گروہ اسلحہ برادر اپنی قوم کے لٸے ایک خوف و دہشت کی علامت بن جاتی ہےـ
جاری بلوچ تحریک بھی ایک مکمل قومی آزادی کی تحریک ہے، اگر ہم بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا موازنہ براعظم افریقہ کی قومی آزادی کی تحریکات سے کریں تو ہمیں بہت سی چیزوں میں ہم آہنگی نظر آٸے گی ـ جیسا کہ بر اعظم افریقہ کے تمام اقوام ملکوں پر بیرونی حملہ آوروں کا قبضہ تھا اور وہ براہ راست سامراجی قوموں کے قبضے میں تھے، اسی لیٸے بر اعظم افریقہ کے اقوام کی تحریکات مکمل قومی آزادی کی تحریکیں رہی ہیں، انگولا کی آزادی کی تحریک بھی بلوچ قومی آزادی کی طرح مسلح گوریلا تحریک تھی، جس کی وجہ سے انگولا آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچ قومی تحریک افریقی اقوام یا دوسری قومی آزادی کی تحریکوں کی طرح متحد و منظم ہے؟ اس کا سادہ جواب افسوس کے ساتھ نفی میں ہےـ گوکہ ہر خطے کے اپنے معروضی حالات ہوتے ہیں، مگر مسلح قومی جنگ اور بہت سی باتیں مشترکہ ہوتی ہیں ـ
اس کا جاٸزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آٸے گی کہ 2004 سے لے کر 2010 تک قومی تحریک اپنے بام عروج پر پہنچی ہوٸی نظر آتی ہے ـ لیکن آج حالات کافی بدل چکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قابض ریاست نے اپنے چالوں سے جبر و تشدد کی ساری حدیں پھلانگ دی ہیں ـ
تحریک کے انگنت سپوتوں کو غاٸب کرکے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک کر انہیں شہید کر دیا گیا ہزاروں فرزند اب تک لاپتہ ہیں آج تحریک کو جو تھوڑی بہت بین الاقوامی پذیراٸی ملی ہے وہ ان شہیدوں کی مقدس لہو کی برکتوں سے ہے ـ
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم قربانیوں کے باوجود بلوچ قومی آزادی سے وابسطہ رہنما کیا ایک منظم و متحد تنظیم یا پارٹی قوم کو دے پاٸے ہیں؟ ایک دہاٸی سے زیادہ عرصے میں کیا گوریلا موومنٹ ایک بھی آزاد علاقہ قاٸم کر سکی ہے ؟ کیا قومی آزادی کی تحریک سے وابسطہ رہنماوں اور پارٹیوں نے قومی اداروں کا قیام عمل میں لایا ہے؟ آج پھر پارلیمنٹ پرست پارٹیاں بلوچستان کے تمام علاقوں میں سرعت کر رہی ہیں اور ہم کہاں ہیں تقسیم در تقسیم ـ بلوچ آزادی پسند لیڈر شپ اپنی انا کے خول سے نکلنے کے لٸے تیار ہیں؟
ہزاروں سلام ہے مظلوم بلوچ قوم کو جو اب بھی اپنی قومی غیرت کے ساتھ آزادی کی تحریک کےلٸے ہر قسم کی قربانی دینے کیلٸے تیار ہےـ
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔