ریحان زندہ ہے
تحریر۔ خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں غلام ہوں اس بات کا افسوس نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ہم غلام قوم کے بھی غلام ہیں۔ میں11 اگست کے دن نیٹورک پر آیا ایک نیوز نظر سے گذرا کہ دالبندن میں چینی انجینیروں پر فدائی حملہ ہوا ہے۔
اُس نیوز کو میں پڑھ رہا تھا، جب ریحان بلوچ کا نام سامنے آیا اور اُسے بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان نے جیئند بلوچ کے نام سے قبول کیا گیا تھا، تو بے انتہاء خوشی سے میرے آنسو آئے اور فخر سے میں نے اپنے قریب اور ہمراہ دوست کو بولا ریحان جان نے چینیوں پر فدائی حملہ کیا ہے، جس سے کئی چینی انجینئر اور معتدد ایف سی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ یقین جانو آنسو پونچنے کے بعد سینہ خوشی سے چوڑا ہوگیا۔
اُسی دن سے میں کوشش کرتا آرہا ہوں کہ ریحان جان کے بارے میں کچھ لکھوں پر میرے ہاتھ لرزتے رہے اور قلم نے ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ریحان جان کے بارے میں لکھتے ہوئے میرے کمزور خیالات اور قلم کی نوک سے ناانصافی ہو کیوں کہ ریحان جان نے ایک عظیم مقصد کےلیئے قربانی دی ہے، اس لیئے ریحان بلوچ عظیم سے عظیم تر کہلانے کا مستحق ہے۔
شہید کبھی مرتے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتے ہیں۔ مگر میں صرف اور صرف اپنے ذہنی تسکین کے لئے کچھ لکھنے کی جرت کررہا ہوں۔
دنیا میں سب سے طاقتور اور مظبوط چیز انسان ہی ہوتا ہے، مگر وہی انسان جو غلامی کی زندگی گذار رہا ہو اور اُسے احساس ہو کہ میں غلام ہوں، وہی جستجو اس غلام انسان کو غلامی کا احساس دلاتا ہے۔ تب وہ غلام قوم جب غلامی کی گہری نیند سے جاگ جاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت اُس کو سلا نہیں سکتا، اسے بے حس نہیں بنا سکتا، اور اس کو غلام نہیں رکھ سکتا کیونکہ کہ جاگتے ہوئے قوم کا راستہ کوئی بھی برپا طوفان نہیں روک سکتا کیونکہ جاگا ہوا قوم کسی بھی قسم کے طوفان کا راستہ روک سکتا ہےـ کسی بھی قابض و سامراج کو تہس نہس کرسکتا ہےـ اس کی کئی ایسے پر آشوب مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
پہلا مثال ہم چین کا لیتے ہیں چینی قوم دنیا میں چرسی، افیونی، شرابی نیز مختلف نشوں میں مبتلا قوم کے نام سے مشہور تھےـ دنیا جہاں سے بے خبر نشے میں دھت اپنے غلامی کی زندگی میں قید دنیا سے بہت پیچھے نچلے سطح کی زندگی جی رہے تھے۔ پھر ان کی قوم میں ماؤزے تنگ جیسے رہنما اور ہیرو پیدا ہوئے، جنہوں نے انکو یکجا کرکے ایک قوم بنایا، انکو اتحاد کا راستہ دکھایا، ان کو دنیا کے قوموں میں ایک قوم کی حیثیت دلائی ان کو مزاحمت کا راستہ دکھا کر اپنے سے بڑے طاقتور دشمن کو شکست دے کر آزادی حاصل کرلی، پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں وہی چرسی، شرابی، افیونی چینی قوم جاگنے کے بعد دنیا کے سپر پاور امریکہ، برطانیہ، روس وغیرہ کو ٹیک آور کرکے علمی، معاشی اور عسکری پاور میں آگے نکلنے والی ہے.
ریحان جان کو غلامی کا احساس ہوا تھا وہ مکران میں ہونے والا ظلم و جبر اور شہیدوں کی ماوں، بہنوں کا چیخنا محسوس کرتا تھا، اس نے توتک میں اجتماعی قبروں کو دیکھا اور اُن شہیدوں کے ماں، باپ، بہن ،بھائی بیوی اور سب کے ارمان وہ بے بسی وہ چیخ محسوس کیا۔ اور شہید درویش کی ماں اور بچوں کے وہ بے انتہا خوشی اور فخر کو محسوس کیا کہ شہید درویش نے جس مقصد کے لئے قربانی دی وہ کارواں آج بھی رواں دواں ہے۔
میرے خیال میں اگر انسان کو سجدہ کرنا ہوتا تو میں سب سے پہلے اُس ماں کو سجدہ کرتا کہ جس نے اپنے لختِ جگر کو قومی بیرک میں لپیٹ کر خدا حافظ کرکے کہا تھا کہ جاو میرے بیٹے میں نے آپ کو وطن پر قربان کیا، اُف تک بھی نہیں کرتی وہ ماں، ماں ہی نہیں ہوتے فرشتے ہوتے ہیں جو اپنے وطن پر قبضہ اور ظلم و جبر اور قوم کی درد و تکلیف کو محسوس کرتا ہے، وہ لمہ کیسا لمہ ہوگا، جب ریحان جان کو اُس کے ماں نے خدا حافظ کیا ہوگا، اُس کے بارے میں جب بھی سوچتاہوں تو دماغ میں ایک طوفان سا برپا ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے آسمان سے چیخوں کی آوازیں آتی ہیں، زمین ٹوٹ پڑتا ہے، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتا ہے، پاوں لرزتے ہیں، کیونکہ ہم جسے نالائقوں کے بس کی بات ہی نہیں کہ اُن لمحوں کے بارے میں سوچ سکیں۔
وہ بہن عائشہ جس نے ریحان جیسا بھائی، جو بچپن سے لیکر خدا حافظ کرنے کے وقت تک ایک ساتھ ہو، بھائی بہن کا رشتہ اور ساتھ ساتھ نظریاتی رشتہ، وہ دوست تھے، اپنے ہر عمل خیال اور درد سے واقف تھے، وہ ہم فکر تھے، ہم خیال تھے، ہم سفر تھے۔ اتنے بے انتہاء مہر و محبت میں اُس بہن پر کیا بیتی ہوگی، جب ریحان جان جیسا بھائی خدا حافظ کرکے اپنے مشن پر رواں ہوگیا ہوگا؟
ریحان جان کی شہادت کے بعد بہن عائشہ کے دو تحریر میں نے پڑھے، اُس کے افسانے دیکھ کر میرے جان میں طاقت آگیا، میں دعا کرتا ہوں ہر بلوچ کو عائشہ جیسی بہن نصیب ہو اور ریحان جان کی ماں جیسے ماں نصیب ہو کیوں کہ کہتے ہیں خوش قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں، جس کے ماں باپ اُس کی ہر مقصد کے لئے اُس کے ساتھ ہوتے ہیں۔
حیرت ہوتا ہے اُن لوگوں پر، کوئی ایسے عظیم مقصد کے لئے قربانی دے کر اُس کام پر غیر ضروری تنقید کرتے ہوئے، اس عظیم کارنامے کو ہضم نہیں کرسکے، وہ دشمن سے بڑھ کر دلوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں، جی یہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے اپنے ہی بیٹے کو استعمال کر چکا ہے۔
افسوس سد افسوس کہ تم لوگوں سے وہ دشمن اچھا ہے، کم از کم جو بھی ظلم کرتا ہیں ظاہری اور شعوری بنیادوں پر کرتا ہے. مگر تم اکثر منافقت کا چادر اوڑھے ہوئے پیچھے سے ایسے وار کرتے ہو کہ اس کی وجہ سے تمہارا ضمیر روز لوگوں کے سامنے گرتا ہوا صاف نظر آتا ہے۔ دشمن سے کوئی گلہ نہیں وہ تو دشمن ہے ان کی ذہن پر ماتم کرتے ہیں جو ظاہری طور پر قوم اور تحریک کا خیر خواہ اور اندر سے قوم دشمنی پر اتر آتے ہیں۔
آج ہمیں بلوچ نوجوانوں کو غیرضروری چیزوں اور سوچوں سے باہر نکل کر ریحان جان اور دیگر شہداء کی نقش قدم پر چلنا ہوگا، وگرنہ دشمن کا طوفان ہمیں قومی حوالے سے غرق کریگا، پھر تاریخ میں بلوچوں کا نام نشان مٹ جائیگا۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔