خود ستائشی
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
جدید نفسیات کے بانی، ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک حب ذات اور خود ستائشی کا جذبہ نرگسیت کی ہلکی سی شکل ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان انشقاق ذہنی یعنی شیزو فرینیا کی صورت اختیارکرلیتا ہے. پھر انشقاق ذہنی کا مرض دنیاوی معاملات میں دلچسپی کھودیتا ہے، اسے دوسرے کے جذبات، خیالات و احساسات سے نہ لگاؤ رہتا ہے اور نہ ہی اردگرد کے حالات و واقعات اور ماحول سے اس کا کوئی ذہنی و جذباتی تعلق رہتا ہے. وہ خارجی (باہر) ماحول سے مکمل کٹ کر اپنے ہی سوچ اور خیالات میں مگن رہنے لگتا ہے اور پھر یہیں سے نیوروسس کی طرح انسان کی زوال کے شروعات اور اپنے لیئے لوگوں کے ذہن میں نفرت کی فصل اگانے کاآغاز ہوتا ہے اور اسے خودبھی اپنے مریض ہونے کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے لوگ پاگل اور نفسیاتی مریض ہیں، اس لیئے مجھے مریض سمجھتے ہیں. نرگسیت کے اس درجے میں انسان کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے اور وہ توہمات کی دنیا میں جیتا ہے۔
خوشامد پسندی یا اپنی ہی تعریف کا بھوکا انسان ہمیشہ بلواسطہ اور بلاواسطہ ہر جگہ مختلف طریقوں سے اپنی خود تعریف کرتا رہتا ہے وہ دوسرے کے کردار پر نکتہ چینی , طنز و مزاق بھی اپنی ذات کی تعریف و خودنمائی کی نیت سے کرتا ہے۔
بلوچ سماج میں یہ نفسیاتی مرض بلوچ اپاہچ قبائلی و نیم قبائلی سماج کی کوکھ سے جنم لیکر پاکستانی طرز سیاست میں ملاوٹ ہوکر روایتی طرز سیاست کی شکل اختیار کرکے پورے بلوچ سیاست کو لپٹ میں لیکر آج تک کم یا وسیع سطح پر بلوچ قومی تحریک برائے قومی آزادی پر اثر انداز اور حاوی ہے۔
میرا ایمان اور عقیدہ ہے، بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور میں اپنی اس آراء پر مکمل پر اعتماد حد تک قائم ہوں اور قائم رہوں گا کہ جب تک بلوچ قومی تحریک برائے قومی آزادی کی تحریک پر ذرہ بھی اپاہچ قبائلی و نیم قبائلی اور روایتی طرز سیاست کے اثرات ہونگے، اس وقت تک تمام تحریکی و قومی مشکلات، مصائب، محنت و خلوص اور قربانیاں کبھی بھی رنگ نہیں لائینگے اور بلوچ قومی تحریک آزادی اس وقت تک ایک منظم مضبوط اور عوامی تحریک کی شکل اختیار نہیں کریگا بلکہ یہ کینسر نما نفسیاتی امراض کی وجہ سےمزید انتشار، خلفشار، تقسیم در تقسیم اور مسائل کا شکار ہوگا۔
جھوٹ و فریب، دھوکا، حسد، بغض، بدنیتی، خوف و لالچ، خود غرضی، سستی شہرت، تعریف کی بھوک، عدم برداشت، بلیک میلنگ، ضد، انا، ہلڑبازی، غرور و تکبر دوسروں کے جذبات و احساسات اور اعتبار کے ساتھ کھلواڑ، فن کاری، مصنوعیت، اجتماعی احساسات سے بالاتر انفرادی احساس میں مقید ہوکر اپنی غلطی، کمزوری، نالائقی اور بے عملی اور کردار کا بوجھ دوسروں پر ڈالنا، ہر وقت جواز اور بہانے ڈھونڈنا اور ان کا سہارا لینا یہ تمام منفی رویے اور ناسور امراض کے تانے بانے براہِ راست ہمارے بلوچ اپاہچ قبائلی و نیم قباہئی اور روایتی سیاست سے ملتے ہیں۔ جن کا پیدواری ذریعہ علم و شعور کے فقدان میں مضمر ہے۔
کیا دنیا میں کوئی بھی تحریک مجموعی طور پر علم و شعور سے محروم ہوکر آج تک کامیاب ہوئی ہے؟ یا منظم شکل اختیار کرچکی ہے؟ کیا علم و شعور کی حد و حدود اور معیار یہ ہے کہ ہم پاکستان کو قبضہ گیر دشمن سمجھ کر اور آزاد بلوچستان کا علمبردار ہوکر تحریک کے ساتھ بس صرف وابستہ رہیں؟ پھر کیا اگر یہ تمام منفی رویے ایک عام بلوچ میں موجود ہوتے ہوئے وہ قومی تحریک کا حصہ نہیں ہے اور حصہ نہیں ہوتا ہے پھر بھی وہ باشعور اور با علم ہے؟ اگر وہ باشعور اور با علم ہے پھر وہ کیوں تحریک کا حصہ نہیں بنتا؟ اگر ہم بحیثیت جہدکار بھی ان متذکرہ امراض کا شکار ہوکر تحریک کا حصہ ہیں، تو پھر ہم کس دلیل و منطق کے ساتھ باشعور اور باعلم ہیں؟ قطع نظر جذبات، حالات و جبر، غرض اور ماحول کاشکار ہوکر یا پھر کچھ حدتک بلوچی معیار کے تحت تحریک کا حصہ ہونا، شعوری اور علمی فیصلے کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا۔
جب تک علمی اور شعوری سطح پر قیادت سے لیکر جہدکار تک اگر وہ تحریک کا حصہ ہوگا اور ہو بھی تو اس وقت تک وہ الجھن تذذب اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ تحریک کے لیئے بوجھ، پریشانی اور درد سر ہوگا یا پھر کسی بھی مقام پر وہ مایوسی ناامیدی اور بدظنی کی تاریک راہوں میں بھٹک کر راہ فراریت اختیار کریگا۔
راہ فراریت کی مختلف اقسام ہوتے ہیں، ضروری نہیں تحریک سے مکمل دستبرداری بلکہ تحریک کے ساتھ لٹکے ہوئے مشین کی ناکارہ اور غیرضروی پرزوں کی طرح غیر متحرک اور غیرفعال ہونا بھی راہ فراریت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
لاشعوری اور لاعلمی بنیادوں پر تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے بھی مصنوعی و ظاہری حد تک تحریک قومی فکر اور قومی مقصد سے مطمئین لیکن دل و دماغ سے عدم اطمینان کا شکار ہونا خود شعور اور علم کی فقدان کے علامات ہیں۔
ایسے ناسور امراض کے شکار جہدکاروں کی بیماریوں کی اثرات پوری تحریک پر پڑتے اور اثر انداز ہوتے ہیں اور پرعزم پرجوش پرہمت قربانی کے جذبے سے سرشار نوجوانوں کو بھی ناامیدی اور مایوسی کی اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں، جو اپنے کردار اور عمل سے دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
خود ستائشی جہدکار ہمیشہ آخری درجے کے خود غرض انسان ہوکر انفرادی احساس سے لیس ہوکر اجتماعی احساس سے محروم اور مفلوج ہوتے ہیں، وہ صرف اور صرف اپنی ذات میں مدہوش ہوکر دوسروں کے احساسات اور جذبات کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچتے ہیں بلکہ ہر لمحہ، ہر وقت اور ہر حالت میں اپنی ذات اور ذاتی خواہشات کے گول دائرے میں مگن رہتے ہیں۔
اگر بلوچ جہدکار مخلصی، ایمانداری، نیک نیتی سے ایک منظم مضبوط اور رول ماڈل تحریک کے خواہشمند ہیں تو وہ وقت گذاری اور وقت پاسی سے ہٹ کر تو بلاجھجک بلاخوف و بلارواداری سے دوٹوک انداز میں سب سے پہلے خود کو ایسے امراض سے شفاء یاب کریں، پھر ایسے امراض کی ہر جگہ، ہرحالت اور ہر موقع پر مکمل حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کریں تاکہ تمام شہیدوں کی مقدس لہو اور بلوچ قوم کے بے شمار قربانیوں کا احترام اور لاج ہمیشہ قائم و دائم ہو تب جاکر قومی تحریک یقنناً کامیاب و کامران ہوگا۔